خیبرپختونخوا میں کرکٹ دیگر کھیلوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے
خالدہ نیاز
خیبرپختوںخوا میں مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی شکوہ کرتے ہیں کہ میڈیا جتنی کوریج کرکٹ اور کرکٹرز کو دیتا ہے اتنی ان کو نہیں دی جاتی۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ دن رات محنت کرکے کوئی ٹائٹل جیتتے ہیں یا ریکارڈ بناتے ہیں لیکن پھر بھی ہر جگہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے تحصیل لدھا سے تعلق رکھنے والے مکس مارشل آرٹ اور جمناسٹک کے کھلاڑی اور کوچ عرفان محسود کا کہنا ہے کہ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے ان کے 31 ریکارڈ کی تصدیق کی ہے جبکہ وہ دنیا میں واحد کھلاڑی ہے جنہوں نے 18 ریکارڈ پش اپس میں بنائے ہیں لیکن اس کے باوجود مین سٹریم میڈیا میں ان کو کوئی کوریج نہیں ملتی۔
‘میرا گلہ ہے کہ میں ایک ریکارڈ کے لیے پانچ چھ مہینے محنت کرتا ہوں لیکن پھربھی مجھے کوئی خاص کوریج نہیں دی جاتی، حالانکہ مین سٹریم میڈیا نے زیادہ ترپروگرام سپورٹس کے نام پرشروع کیے ہیں، ان پروگراموں میں کرکٹ کے حوالے سے کافی سنا اور دیکھا ہے لیکن باقی گیمز کے حوالے سے کبھی نہ دیکھا نہ سنا، میڈیا نے قومی کھیل ہاکی کو پس پشت ڈال دیا ہے تو ہم مارشل آرٹس والے کیا گلہ کریں’ عرفان محسود نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف میڈیا باقی گیمز کو کوریج نہیں دیتا بلکہ حکومت نے بھی باقی گیمز کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ‘ میں ایک سٹوری دیکھ رہا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کرکٹ کے ایک کوچ کو ماہانہ 25 لاکھ روپے ملتے ہیں لیکن ہم جیسے کھلاڑیوں کوحکومت کی طرف سے پورے سال میں 25 ہزار روپے بھی نہیں ملتے اور اگر حکومت کی طرف سے کھلاڑیوں کے لیے کوئی فنڈ منظور بھی ہوجائے تو کھلاڑیوں کو اس سے کچھ نہیں ملتا’ عرفان محسود نے گلہ کرتے ہوئے بتایا۔
نہ صرف گینیزبک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا لوہا منوانے والا عرفان محسود شکوہ شکوہ کناں ہے بلکہ دوسرے گیمز میں نام پیدا کرنے والے دیگر کھلاڑی بھی حکومتی عدم توجہ اور میڈیا کوریج سے مایوس ہیں۔
لان ٹینس میں خیبرپختونخوا کی نمبرون کھلاڑی اورین جاسیہ کا اس حوالے سے کہنا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں میں صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھا جاتا ہے اور ساری مراعات بھی کرکٹرز کے لیے ہے جبکہ باقی گیمز کو کوئی توجہ نہیں مل رہی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو سکواش میں ہمارے پاس کئی نامور کھلاڑی رہ چکے ہیں جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے اس کے علاوہ باقی گیمز میں بھی کئی کھلاڑیوں نے اپنا نام پیدا کیا ہے لیکن پھر بھی وہ گیمز اور کھلاڑی اب نظروں سے اوجھل ہے۔
کونسی وجوہات ہیں کہ جس کی بناپر کرکٹ کو باقی گیمز پرفوقیت حاصل ہے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اورین جاسیہ نے بتایا کہ نہ حکومت باقی گیمز کو توجہ دے رہی ہے، نہ ہی باقی گیمز کو سہولیات دی جارہی ہے اور نہ ہی میڈیا کرکٹ کے علاوہ باقی گیمز اور ان گیمز سے وابستہ کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ کو دکھا رہا ہے جس کی وجہ سے کھلاڑی بے چینی کا شکار ہیں۔
‘پاکستانی الیکٹرانک میڈیا باقی گیمز کے مقابلے میں کرکٹ کو زیادہ کوریج دیتی ہے اس کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں سپانسرشپ کے مواقع بھی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے باقی گیمز کو کوئی توجہ نہیں مل پارہی’
یہ باتیں پچھلے 32 سال سے پشاورمیں سپورٹس صحافی کی حیثیت سےکام کرنے والے اعجاز احمد خان نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ ایک بارہی جیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ باربار دکھایا جاتا ہے ٹی وی پہ جبکہ پاکستان ہاکی ورلڈ کپ چار بارجیت چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ تین باراولمپک چیمپیئن رہا ہے پر اس کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔
اعجاز احمد خان نے بتایا کہ اگر دیکھا جائے تو 90 کی دہائی میں پاکستان ایشیا کی سطح پر والی بال میں ٹاپ فائیو میں شامل تھا اس کے علاوہ ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن میں ہمارے کھلاڑی کئی ٹائٹل جیت چکے ہیں لیکن پھربھی ان کھلاڑیوں اور گیمز کو وہ توجہ نہیں مل پارہی جو ملنی چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ باقی گیمز کو توجہ نہ ملنے کی وجہ سپانسرشپ ہے جو ایک خاص نقطہ ہے اور سپانسرشپ بھی اس جگہ جاتا ہے جہاں الیکٹرانک میڈیا کی کوریج ہوتی ہے۔ ‘ کرکٹ کے ایک بہت بڑے سپانسر سے میری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا میں کرکٹ کو زیادہ دکھایا جاتا ہے جبکہ ہاکی اور باقی گیمز کو اتنا نہیں دکھایا جاتا تو اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میں کرکٹ کو سپانسر کروں کہ زیادہ وقت ملے مجھے ہاکی کا دورانیہ تو صرف 70 منٹس کا ہوتا ہے جبکہ کرکٹ پانچ دنوں کا بھی ہوتا ہے اور ایک روز کا بھی اور لوگ بھی کرکٹرز کو پسند کرتے ہیں’ اعجاز احمد خان نے وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے 260 ممالک میں فٹبال کا گیم کھیلا جاتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر اس کے مقابلے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فٹبال کو بھی کوئی خاص کوریج نہیں ملتی حالانکہ فٹبال، والی بال اور ہاکی کا ٹیلنٹ یہاں بہت زیادہ ہے لیکن ان کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
اعجاز احمد نے بتایا کہ اس وقت پورے ملک میں صرف خیبرپختونخوا سے والی بال کے 521 کھلاڑی مختلف سطح پرکھیل رہے ہیں اور بے پناہ ٹیلنٹ ہے ان میں لیکن ان کو کوئی توجہ نہیں مل رہی اور یوں ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔
اعجاز احمد نے کہا کہ پاکستان بیس بال ٹیم میں کل 11 کھلاڑی ہے جن میں سے 5 کا تعلق ضلع خیبرسے ہے لیکن وہاں کے مقامی صحافیوں تک کو بھی یہ پتہ نہیں ہوگا کہ ان کے علاقے کے کھلاڑی بیس بال ٹیم میں موجود ہے کیونکہ ان گیمز کی طرف میڈیا کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ اعجاز احمد خان نے بتایا کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے مقابلے میں باقی گیمز کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے۔
پچھلے سات سالوں سے لان ٹینس کھیلنے والی اورین جاسیہ نے کہا کہ نہ ہی میڈیا باقی گیمز کو کوریج دیتا ہے اور نہ ہی ان کو کوئی دوسری سہولیات میسرہے’ ابھی تو کورونا وائرس کی وجہ سے ساری سرگرمیاں بند ہے لیکن میں پچھلے دنوں ایسے ہی شاہی باغ ٹینس اکیڈمی گئی تو وہاں دیکھا کہ جو ٹینس کورٹس بنائے گئے ہیں وہ سارے خراب ہوگئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے’
اگر ایک طرف اورین جاسیہ ٹینس اکیڈمی کی حالت زار کا رونا رو رہی ہے تو دوسری جانب ہاکی اور گیمزکے گراؤنڈز کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ صحافی اعجاز احمد کے مطابق کرکٹ کے گراونڈز ہرجگہ موجود ہے جبکہ ہاکی کے گراونڈ ہرشہر میں موجود نہیں ہے اور پورے خیبرپختونخو میں صرف 8 تک گراونڈز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاکی کے جو گراونڈز موجود ہیں وہ بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے پوری دنیا میں ہاکی گراونڈز میں باقی جدت کے ساتھ وہاں کے سکرب بھی نیلے ہوچکے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں ابھی بھی سبز رنگ کے سکرب ہیں اور باقی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکواش کی دنیا میں خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں نے ایک وقت میں بہت نام کمایا ہے لیکن اس جانب بھی توجہ نہیں دی جارہی اور دوسری بات یہ ہے کہ سکواش کے کورٹس بہت مہنگے ہیں لیکن بہت ہی کم تعداد میں موجود ہیں تو اس وجہ سے ٹیلنٹ ہونے کے باوجود بھی ضائع ہورہا ہے کیونکہ کھلاڑی اپنے خرچے پہ کورٹس نہیں بناسکتے۔
‘میڈیا بھی وہی دکھاتا ہے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں اور کرکٹ تو آجکل بچوں، بوڑھوں جوانوں سب کا کریز ہے، سب کرکٹ کے بخارمیں مبتلا ہے’ یہ کہنا ہے فرنٹیئرکالج پشاور برائے خواتین کی سپورٹس ڈائریکٹر رحم بی بی کا جو خیبرپختونخوا کے لیے پی سی بی کی کوآرڈینیٹربھی رہ چکی ہیں۔
رحم بی بی نے کہا کہ کرکٹ کو میڈیا میں زیادہ توجہ دی جاتی ہے اس لیے کہ اس کو زیادہ سپانسرز ملتے ہیں۔ ‘ سپانسرز کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ان پہ پیسے خرچ نہیں کرتے بلکہ اس میں ان کا اپنا زیادہ فائدہ ہوتا ہے کیونکہ کرکٹ میں تماشائی زیادہ ہوتے ہیں اس کے علاوہ لوگ کرکٹرکو پسند بھی بہت کرتے ہیں تو سپانسراپنا پروڈکٹ صحیح بیچنے کے لیے کرکٹرز کو سپانسرکرتے ہیں’
انہوں نے کہا کہ جو چیز میڈیا پہ زیادہ دکھائی جاتی ہے تو لوگ بھی اسی کے مطابق رائے قائم کرلیتے ہیں اور کرکٹ کو میڈیا زیادہ وقت دیتا ہے بہ نسبت باقی گیمز کے تو اس لیے بھی یہ لوگوں کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے۔
25 سالہ احمد علی کا کہنا ہے کہ ان کو کرکٹر اور کرکٹ جنون کی حد تک پسند ہے اور تو اور سپورٹس کی خبریں بھی وہ شوق سے اس لیے دیکھتے ہیں کہ اس میں کرکٹ کے حوالے سے ضرورکچھ شامل ہوگا۔
‘ابھی تو کورونا کی وجہ سے میچز نہیں ہورہے لیکن جب بھی پاکستان کے کرکٹ میچز ہو یا کوئی بڑا ایونٹ ہو تو ہم سب گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر میچز دیکھتے ہیں اور اس پرخوب تبصرہ بھی کرتے ہیں کیونکہ ہمارے گھر میں سب کرکٹ کے دیوانے ہیں، اور جب پاک بھارت ٹاکرا ہو تو پھر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے’ احمد علی نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ کرکٹ انکو بچپن سے ہی بہت پسند ہے اور خود بھی کرکٹربنانا چاہتے تھے لیکن بس حالات کی وجہ سے بن نہ پائے تاہم وہ مقامی سطح پر کرکٹ کھیلتے ہیں اور جب بھی ان کو موقع ملتا ہے وہ مقامی ٹورنمنٹس میں حصہ لیتے ہیں۔
ضلع نوشہرہ کے علاقے خویشگی سے تعلق رکھنے والے محمد سلیم جو خود بھی ضلعی سطح پرکرکٹ کھیلتے ہیں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ اس لیے زیادہ مشہور کھیل ہے کیونکہ یہ ایک آسان گیم ہے بس ایک بیٹ اور بال لے لو اور کرکٹ کھیل لو اس کے علاوہ دوسری وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں کرکٹ کو بہت زیادہ دکھایا جاتا ہے اور لوگ اسی طرف مائل ہوتے ہیں جو میڈیا ان کو دکھاتا ہے۔
‘کرکٹ کے لیے گراؤنڈز موجود ہیں حکومت بھی کرکٹ کو خاص توجہ دے رہی ہے، کرکٹ کھلاڑیوں کو سنٹرل کنٹریکٹ مل رہے ہیں اس کے علاوہ باقی مراعات بھی ان کو مل رہی ہے، پی سی بی کے علاوہ باقی کمپنیاں بھی کھلاڑیوں سے اپنے پراڈکٹ کے کمرشلز ریکارڈ کرواتے ہیں اور ان کو کافی پیسے دیتے ہیں اور اس کے علاوہ ٹی وی شوز اور پروگرام میں بھی کرکٹر کھلاڑیوں کو بلاتے ہیں کیونکہ لوگ انہیں کو دیکھنا چاہتے ہیں اور میڈیا بھی اپنی ریٹنگ بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ ریٹنگ بڑھانے سے ان کو اشتہار بھی زیادہ ملنا شروع ہوجاتے ہیں ‘ محمد سلیم نے بتایا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے سپورٹس ڈائریکٹر جنرل اسفندیار خٹک نے بتایا کہ ان کا ادارہ کرکٹ کے علاوہ ہاکی سمیت تام باقی اولمپکس گیمزپر کام کرتا ہے جس می ان تمام گیمز کو سہولیات دینا انکے لئے کھیل کے میدان تعمیر کرنا یا بحالی پر خرچ کرنا ڈائریکٹریٹ آف سپورٹس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ہاکی اور کبڈی سمیت مختلف کھیلوں کی 35 ایسوسی ایشنز رجسٹرڈ ہیں جن کو ان کا ادارہ گرانٹس مہیا کرتا ہے تاکہ وہ مختلف ایونٹس کا انعقاد کرسکیں، مقابلے کرواسکیں اور ایسے کھلاڑی پیدا کرسکیں جو بعد میں کے پی لیول اور نیشل لیول پرکھیل سکیں اور نام کماسکیں۔ اسفندیار خٹک نے کہا کہ اس کے علاوہ وہ ان کھیلوں کے لیے گراونڈز اور اکیڈمیاں بھی بناتے ہیں تاکہ کھلاڑی اچھے طریقے سے کھیل سکیں۔
ڈی جی سپورٹس نے بتایا کہ مراد کراٹے کا کھلاڑی ہے انہوں نے اس مرتبہ نیشنل گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا ہے اور انہوں نے سیف گیمز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی ہے اورٹیم ایونٹ میں گولڈ میڈل جیتا ہے، اسی طرح ایک دوسرا کھلاڑی مراد کو بیڈمنٹن کا کھلاڑی ہے اب وہ نیشنل بینک کی جانب سے کھیل رہا ہے جبکہ تائیکوانڈو اور ہاکی میں بھی کئی کھلاڑی اپنا نام پیدا کرچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اولمپکس گیمز کے لیے اس سال کا بجٹ تقریبا 1 ارب اور 58 کروڑ روپے سے زائد تجویز کیا گیا ہے جو صوبے کے مختلف کھیلوں اورکھیل کے میدانوں پرخرچ کیا جائے گا۔
سپورٹس ڈائریکٹرجنرل اسفندیار خٹک نے کہا کہ انکے حال ہی میں مختلف کھیلوں کے انڈر 21 گیمز تھے لیکن ابھی کورونا وبا کی وجہ سے منسوخ ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا میں تشہیر کے لیے ان کا کوئی بجٹ مخصوص نہیں ہوتا البتہ انڈر21 یا باقی قومی سطح کے گیمز کے لیے بجٹ کا کچھ حصہ پروموشن کے لیے مختص کیا جاتا ہے اور اگر کوئی اشتہار بھی لگانا ہوتا ہے گیمز کے حوالے سے تو انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے لگاتے ہیں، ہمارا ادارہ صرف ان کو بھیج دیتا ہے پھر لگانا ان کا کام ہوتا ہے۔