فیچرز اور انٹرویوقومی

جب سینکڑوں افغان مہاجرین ایک جھوٹے سوشل میڈیا پیغام کو سچ سجھ بیٹھے

افتخار خان

دو ہفتے قبل طورخم بارڈر پر اس وقت ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی جب بارڈر کی بندش کے باوجود سینکڑوں افغان شہری وہاں جمع ہو گئے، ان کا کہنا تھا کہ بارڈر کھولنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے لیکن بارڈر حکام نے ان پر واضح کیا کہ وہ لوگ کسی افواہ پر یقین کر کے خود کو تکلیف دے بیٹھے ہیں۔

یہ صورتحال سوشل میڈیا ویب سائٹس فیس بک اور وٹس ایپ پر افغان شہریوں کے مختلف گروپس میں ایک ملتے جلتے جھوٹے پیغام کے شیئر ہونے کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ پیغام میں کہا گیا تھا کہ کورونا وباء کی وجہ سے کئی ہفتوں سے بند طورخم بارڈر کل سے افغان شہریوں کے لئے دوبارہ کھولا جا رہا ہے۔ جھوٹے پیغام کے بعد نہ صرف پشاور اور آس پاس کے اضلاع سے سینکڑوں افغان شہری صبح سویرے بارڈر پہنچ گئے تھے بلکہ دور دراز کے اضلاع سے بھی کئی خاندان طورخم آ گئے تھے۔

فوٹو بشکریہ بابر خان

سینکڑوں افغان شہری کیوں کرایسی افواہ کا شکار ہو گئے اور کیا ان کے پاس دوسرے ذرائع سے اس اطلاع کی تصدیق کی گنجائش نہیں تھی؟ اس حوالے سے افغان شہریوں میں مختلف حوالوں سے آگاہی پھیلانے والے صمیم احمد نشاط کہتے ہیں کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی آزاد معلومات تک رسائی کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ لوگ زیادہ تر معلومات سوشل میڈیا ویب سائٹس سے ہی لیتے ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات ایسی افواہوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی میں بائیو ٹیکنالوجی کے طالب علم 21 سالہ صمیم احمد کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں زیادہ متاثرہ طبقہ وہ ہے جو کہ کیمپوں میں رہ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں ‘کمیپوں میں مقیم مہاجرین کے پاس معلومات تک رسائی کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے، ٹیلی ویژن سیٹس ان کے پاس ہوں بھی تو بجلی نہیں ہوتی اور اگر بجلی بھی ہو تو یہاں ٹی وی چینلز پر افغان مہاجرین سے متعلق خبریں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے زیادہ تر افغان شہری بھی بہت کم پڑھے لکھے ہیں اور انہیں ایسی اطلاعات کی تصدیق کے طریقوں کی کوئی خاص جانکاری نہیں ہوتی۔

یہ بھی پڑھیں:

طورخم بارڈر پیدل آمد و رفت کیلئے کھول دیا گیا

”افغانیوں کیلئے الگ چینل نا سہی الگ پروگرام تو ضرور ہونا چاہئے”

”افغانستان میں امن قائم ہونے کے بعد بھی وہاں جانے کیلئے تیار نہیں ہوں”

پشاور میں مقیم افغان نوجوان شاہد خان بھی صمیم احمد کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے افغانستان سے متعلق خبروں کیلئے ان کیمپوں میں ریڈیو بہت باقاعدگی سے سنا جاتا تھا لیکن نئی نسل نے ریڈیو سننا بھی چھوڑ دیا ہے اور اب صرف چند بزرگ ہی معلومات کے لئے بی بی سی اور دوسرے غیر ملکی ریڈیو چینلز پر انحصار کرتے ہیں۔

فوٹو بشکریہ یو این ایچ سی آر

انہوں نے کہا کہ نوجوان طبقہ اب افغانستان کے معاملات سمیت تمام معلومات سوشل میڈیا سے ہی لیتا ہے اور پھر کمیونٹی کے دیگر لوگوں کو بھی وہی معلومات پہنچا دی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان خواتین اس سلسلے میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ ہے جو کہ بہت ہی کم ‘فرسٹ ہینڈ’ معلومات تک رسائی رکھتی ہیں۔

شاہد خان نے کہا کہ معلومات حاصل کرنے کے لئے لوگوں کا رجحان بدلنے کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر بھی افغان پناہ گزینوں تک رسائی کے لئے اپنے طور طریقوں میں کچھ حد تک تبدیلی لایا ہے۔ پہلے یو این ایچ سی آر اگر اپنے کسی پروگرام کے حوالے سے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی کا استeمال کرتا تھا تو اب زیادہ تر سوشل میڈیا استمال کر رہا ہے۔

پشاور میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی بھی اس بات کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ادارہ صرف سوشل میڈیا پر اکتفا نہیں کر رہا بلکہ مہاجرین کو آگاہ کرنے کے لئے دیگر تمام ذرائع کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی استعمال کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا (مقامی اخبارات، ٹی وی چینلز، ریڈیو چینلز) بل بورڈز وغیرہ کے استعمال کے علاوہ یو این ایچ سی آر کے پاکستان میں 3 ہزار افغان رضاکار بھی ہیں جو کہ مختلف اوقات میں آگاہی کے منصوبے آگے بڑھانے میں ہمارے کام آتے ہیں۔

فوٹو بشکریہ یو این ایچ سی آر

انہوں نے کہا کہ یو این ایچ سی آر کے اراکین پہلے یہ دیکھتے اور جانچتے ہیں کہ مہاجرین کو کس معاملے کے حوالے سے اگاہی دی جا رہی ہے یا انہیں کس منصوبے کے حوالے سے معلومات دینی ہیں اور پھر اسی کے مطابق میڈیم بھی منتخب کیا جاتا ہے کہ کیسے ان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے گا۔

کورونا یا کووڈ-19 کے حوالے سے افغان مہاجرین کو آگاہی کون سے ذرائع سے دی جا رہی ہے؟

چین میں پچھلے سال نومبر میں سامنے آنے والا کورونا وائرس اس وقت دنیا کے 216 ممالک میں پھیلا ہوا ہے جس سے دنیا بھر میں اب تک 84 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ 53 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

کورونا وائرس سے متاثرہ ٹاپ 15 ممالک میں تقریباً 90 لاکھ مہاجرین مقیم ہیں جبکہ یو این ایچ سی آر کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پناہ گزینوں  کو پناہ دینے والے ممالک میں یونان، لبنان، پاکستان، ترکی اور جرمنی شامل ہیں۔

پاکستان میں 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد بھی اتنی ہی بتائی جاتی ہے۔

پاکستان بھی دنیا بھر میں کورونا سے زیادہ متاثرہ 15 ممالک میں شامل ہے جہاں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ 65 ہزار سے زائد جبکہ اموات 3 ہزار سے متجاوز ہو چکی ہیں۔

28 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والے ملک میں جہاں عام پاکستانی اس وائرس کے خطرے سے دوچار ہے وہاں ان مہاجرین کی حالت زار اور بھی نازک بتائی جاتی ہے کیونکہ عام شہریوں کو حکومت کی جانب سے تقریباً تمام ذرائع ابلاغ پر اس وباء سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں بلکہ ریاست کی جانب سے اس دوران لاک ڈاؤن سے متاثرہ لوگوں کی مالی اعانت کے مختلف پروگرامات بھی شروع کئے گئے ہیں لیکن ایسے میں ان شہریوں کو نہ تو آگاہی دینے کا کوئی منظم منصوبہ نظر آ رہا ہے اور نہ ہی اب تک ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کے مطابق مالی امداد ہوئی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت کے دوران یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے بتایا کہ افغان شہریوں کو کورونا وائرس کے بارے آگاہی دینے کا ایک بہت بڑا اور منظم منصوبہ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا اس سلسلے میں سب سے زیادہ مدد رضاکاروں سے لی جا رہی ہے، یو این ایچ سی آر کے پارٹنر ادارے پہلے ان رضاکاروں کو تربیت دیتے ہیں اور یہ لوگ پھر کمیونٹی میں جا کر عام لوگوں کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔

بشکریہ یو این ایچ سی آر

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مہاجرین کے علاقوں میں آگاہی والے بینرز بھی لگائے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ ٹی وی چینلز اور اخبارات سے بھی آگاہی لیتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر اس سلسلے میں آگاہی پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کا بھی استعمال کر رہا ہے اور اب ادارے کی کوشش ہے کہ زیادہ تر آگاہی مہمات کو سوشل میڈیا پر چلایا جائے۔

نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک کیمپ میں مقیم بزرگ مہاجر حاجی فیض محمد نے بھی قیصر آفریدی کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یو این ایچ سی آر کے رضاکار تسلسل کے ساتھ کیمپ آتے ہیں اور لوگوں کو آگاہی دیتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ ان افغان مہاجرین کے وٹس ایپ گروپس بھی بنے ہوئے ہیں ان میں بھی وقتاً فوقتاً آگاہی پیغامات اور ویڈیوز شئیر ہوتی رہتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ لوگ ان ہدایات پر عمل نہیں کرتے۔

جس طرح پاکستانیوں میں ایک افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ زیادہ تر کورونا مریض جو ہسپتال جاتے ہیں ان کو زہر کا ٹیکہ دے کر مار دیا جاتا ہے تو یہی جھوٹی افواہیں افغان شہریوں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔

حاجی فیض محمد کہتے ہیں کہ کیمپس اور گھروں میں درجنوں مہاجرین کورونا سے متاثر ہوئے ہیں لیکن ہسپتال جانے سے ڈرتے ہیں اور انہوں نے اپنے گھروں میں ہی خود کو قرنطین کر دیا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کورونا سے جڑی افواہیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ پاکستان میں افغان شہریوں کو اس قسم کی افواہوں سے دور رکھنے اور انہیں اس وائرس سے بچانے اور ان کی امداد کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

قیصر افریدی کے مطابق یو این ایچ سی ار کا سروے مکمل ہو چکا ہے جس کے تحت پاکستان میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیروزگار ہونے والے 36 ہزار خاندانوں کو حکومتِ پاکستان کے احساس پروگرام کے طرز پر فی خاندان 12 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سروے کے بعد چانچ پڑتال کا مرحلہ تھوڑا مشکل تھا اس لئے امداد کے اجرا میں کچھ زیادہ وقت لگا لیکن اب بہت جلد ان رقوم کی ادائیگی شروع کی جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button