خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

افغان دوشیزہ کہتی ہے اب پاکستان سے اس کی لاش ہی واپس جائے گی

 

ناہید جہانگیر

‘پاکستان سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں وہ الگ بات ہے اگر بوری میں بند کر کے افغان سرحد پر کوئی زبردستی پھینک آئے’ افغانستان کے پتیوات شہر سے تعلق رکھنے والی بریخنا جو پشاور شہر میں پیدا ہوئی نے اپنی گول گول نیلی آنکھوں کو حیرانی سے گھماتے ہوئے کہا۔

افغانستان میں امن معاہدے کے بعد 40 سالوں سے مقیم افغان مہاجرین کا پاکستان میں مزید ٹھہرنے کا جواز اصولی طور پر ختم ہوجائے گا لیکن یہاں پر بریخنا جیسے عشروں سے آباد زیادہ تر مہاجرین پھر بھی اپنے ملک جانے سے کترائیں گے۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصرخان آفریدی کے مطابق پاکستان میں تقریباً 14 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں جن میں خیبر پختونخوا میں 8 لاکھ 25 ہزار، بلوچستان میں 3 لاکھ 25 ہزار، پنجاب میں 1 لاکھ 60 ہزار اور سندھ میں 65 ہزار مقیم ہیں۔

ان کی نسلیں یہاں پلی بڑھی ہیں، یہ مہاجرین جہاں ایک یہاں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں تو دوسری طرف اس معاشرے پر اپنی ثقافت، معاشرت اور معیشت کے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

افغان مہاجرین کی معاشرتی اثرات

‘اللہ نہ کرے کبھی حکومت ہم کو زبردستی افغانستان بھیجے اگر ایسا ہوا تو اپنے بیٹے کی میت بھی قبر کھود کر ساتھ لے جاؤں گی۔’

گل پری جو پشاور شہر میں 1980 سے اپنی جوانی سے پڑھاپے کا سفر طے کرچکی ہیں کا کہنا ہے کہ رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے اور ہم اپنا نصیب بھی ساتھ پاکستان لے کر آئے ہیں، اب پاکستان چھوڑنا آسان نہیں ہے کیونکہ ان کے جواں سال بیٹے کی قبر یہاں ہیں۔

افغان مہاجرین کے 40 سالہ قیام سے رویوں، زبان، خوراک، لباس اور رسم و رواج پر کافی حد تک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین کے رہن سہن پر پشاور اور پشاور کے لوگوں کے رہن سہن پر افغانیوں کے گہرے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ یہ بات پشاور یونیورسٹی کے عمرانیات ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر خان نے کی۔

انہوں نے کہا کہ شادی بیاہ میں دلہن سے لیکر عام لوگوں تک لباس اور خوراک مکس ہو گیا ہے، افغان مہاجرین پاکستانی شلوار قمیض لباس میں آپ کو نظر آئیں گے اور پاکستانی خواتین آپ کو فراک یا کوچی لباس میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر خان نے کہا کہ لباس کے علاوہ زبان پر اثرات ہیں یہاں کے مقامی لوگ اکثر اپنی باتوں میں افغانی الفاظ استعمال کرتے ہیں اس طرح ہماری زبان کا اثر ان کے لہجے میں نظر آتا ہے۔

خوراک کی اگر بات کی جائے تو اب پشاور میں لوگوں کے پسندیدہ کھانوں میں کابلی پلاو، دم پخ، پٹی تکے (کوٹیڈ تکہ) منتو، عاش ہیں اور جگہ جگہ ان کے رسٹورانٹ بھی نظر آتے ہیں۔ اسی طرح افغان مہاجرین نے پاکستانی سمیت پشاور کے کھانوں کو اپنایا ہے۔

منفی اثرات کی اگر بات کی جائے تو جب افغان مہاجرین نے پاکستان ہجرت کی تو یہاں مدرسہ کلچر شروع ہوا کیونکہ وہاں افغانستان میں زیادہ تر لوگ مدرسہ سے گریجویٹ تھے تو انہوں نے یہاں بھی مدرسے قائم کئے جو اسی میں رہتے تھے جس کے منفی اثرات نے پورے پاکستان اور خاص کر خیبرپختونخوا کو بہت متاثر کیا اور کئی سالوں تک ہمارے ملک کو اس کا نقصان طالبان کی شکل میں دہشت گردی سے اٹھانا پڑا۔

منفی اور مثبت معاشرتی اثرات کے حوالے سے پشاور کے صحافی ارشد یوسف زئی نے کہا کہ پشاور ایک چھوٹا اور گنجان آباد شہر ہے جہاں تقریباً 10 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین مقیم ہیں۔

مہاجرین کی وجہ سے خیبر پختونخوا میں اگر منفی اثرات کو دیکھا جائے تو اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ ان کی وجہ سے پشاور شہر گنجان آباد ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرائم میں زیادہ تر افغان مہاجرین کا ہاتھ ہوتا ہے اگر پولیس ریکارڈ دیکھا جائے تو اغوا برائے تاوان، کارلفٹنگ، موٹرسائیکل لفٹنگ، موبائل سنیچنگ، اجرتی قتل میں مہاجرین ملوث پائے جاتے ہیں۔

افغان مہاجرین قانون کی خلاف ورزی بہت کرتے ہیں اور پاکستانی قانون کو تو مانتے ہی نہیں ہیں۔iافغانستان کے کابل شہر سے تعلق رکھنے والی قاندی صافی جو کئی سالوں سے پشاور میں مقیم ہیں نے کہا کہ پشاور میں اب بہت کم خاندان آباد ہیں کئی سال پہلے ان کے خاندان کے کافی تعداد میں گھرانے آباد تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کچھ افغانستان واپس چلے گئے اور کچھ بیرونی ممالک سیٹل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے مزید نے کہا کہ جو بھی اکا دکا گھرانے پشاور میں رہ گئے ہیں وہ اس انتظار میں ہیں کہ کب امن قائم ہوگا کہ اپنے وطن افغانستان جائیں کیونکہ ان کی طرح ان سب کا کوئی ہے نہیں یہاں پر۔ قاندی صافی کے مطابق پاکستان اور خاص کر پشاور میں مقیم اور زندگی بسر کرنے والے مہاجرین کی اکژیت افغانستان نہیں جائے گی ایک اہم وجہ یہاں انہوں نے رشتے کئے ہیں، ان کے مردے یہاں دفن ہیں، گھر اور کاروبار ہیں۔

دوسری اہم وجہ ان کی موجودہ نسل پشاور میں پلی بڑھی ہے اب شاید افغانستان میں آسانی سے ایڈجسٹ نہ ہو، رہن سہن، زبان سب کچھ اب ان کا افغانستان سے مختلف ہے۔

افغان مہاجرین تقریبا 15 فیصد تک مختلف جرائم میں ملوث : پولیس ریکارڈ

ارشد یوسف زئی کے اس انکشاف کے جواب میں کہ پشاور میں افغانی زیادہ تر جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں ایس ایس پی آپریشن ظہور آفریدی نے کہا کہ رواں سال 2020 کے دوارن افغان باشندوں کے خلاف قتل، اقدام قتل،چوری، کارلفٹنگ، جنسی حراسانی اور منشیات سمیت باقی جرائم کے کل 186 کیسز رجسٹرڈ ہوئے، جن میں 220 افغان مہاجر ملوث تھے اور ان میں سے 212 کو گرفتار کیاجاچکا ہے۔

ایس ایس پی آپریشن سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق حال ہی میں پشاور میں لاک ڈاون کے دوران افغان باشندوں کے خلاف 24 کسیزرجسٹرڈ ہوئے جن میں 30 افغان مہاجر ملوث تھے اور 29 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہون ںے کہا کہ جرائم میں افغان کی شرح 15 اعشاریہ 5 فیصد ہیں۔

اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یواین ایچ سی آر) ریکارڈ

یواین ایچ سی آر کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے کہا کہ پاکستان میں جن کے پاس تصدیق شدہ افغان کارڈ موجود ہیں ان کو رجسٹرڈ افغان مہاجر کہا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں 3 قسم کے افغان مہاجر رجسٹرڈ ہیں۔ ايک وه جو یو این ایچ سی آر کے مینڈیٹ میں آتے ہیں اور ان کو بین الااقوامی تحفظ حاصل ہے ان کی تعداد تقریباً 14 لاکھ ہے۔

دوسری قسم میں وہ افغانی شامل ہیں جو 2017 میں پاکستانی گورنمنٹ نے ان کو رجسٹرڈ کیا تھا ان کی تعداد تقریباً 8 لاکھ 80 ہزار ہے اور ان کو افغانی شہریت کارڈ دیا گیا ہے۔ تیسری وہ قسم ہیں جن کے پاس کوئی تصدیق شدہ کارڈ یا شہریت کارڈ موجود نہیں ہیں۔ ان افغانیوں کو افغان مہاجرین نہیں کہا جا سکتا بلکہ افغان شہری کہا جاتا ہے۔

قیصر خان آفریدی کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے ملک میں دو سنٹر ایک نوشہرہ اور ایک کوئٹہ میں ہے جانے سے پہلے وہ اس سینٹر آتے ہیں جہاں ان کو نادرا دفتر میں رجسٹرڈ کیا جاتا ہے پھر یواین ایچ سی آر کی مقرر کردہ ان کیشمنٹ سنٹر سے 200 سو ڈالر انکو دیئے جاتے ہیں اور پھر وہی مہاجر گھرانہ وطن واپس لوٹتا ہے۔

یواین ایچ سی آر کی طرف سے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے لئے 4 ہزار 500 پروجیکٹ ہیں جن سے ان کو تعیلم ، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کی آسانیاں دی جاتی ہیں جو ان کے مطابق ملک کی معیشت پرایک بڑا بوجھ ہے لیکن دوسری جانب کاروبار، مزدوری اور ٹیکس کی صورت میں پاکستان کو فائدہ ملتا ہے۔ یو این ایچ سی آرسپوکس پرسن نے بتایا۔

افغان مہاجرین کی معیشت پرکس حد تک اثرات مرتب ہیں

عبدالعزیز صافی 24 سالوں سے پشاور شہر کے صدر بازارمیں افغانی لباس کے بڑے پیمانے پرکاروبار سے منسلک ہیں ان کے ساتھ تقریباً 20 کے قریب کاریگر کام کرتے ہیں جن میں زیادہ تر یہاں کے مقامی کاریگر ہیں۔

ان کے خیال میں اگر وہ لوگ امن معاہدے کے بعد پشاور چھوڑ کر چلے جاتے ہیں تو یہاں اپنا کاروبار بالکل ختم کرنا ہوگا اور وہاں کابل میں دوبارہ سے شروع کرنا ہوگا جو اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اور دوسرا اہم مسلہ جو 20 مقامی کاریگر ان کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ بھی بے روزگار ہو جائیں گے، ان کا کاروبار تو ختم ہوگا لیکن ساتھ ساتھ 20 مزدور بھی معاشی بحران سے دوچار ہوں گے۔

عبدالعزیز صافی نے کہا کہ مشکل ہے کہ جن مہاجرین کا یہاں کاروبار ہے وہ واپس اپنے وطن افغانستان چلے جائیں بشرطیکہ پاکستانی حکومت بہت سختی نہ کرے تو۔

سینئرتجزیہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی نے افغان مہاجرین کی پاکستان اور خاص کر پشاور کی معاشی اثرات کے حوالے سے کہا کہ اگر افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہوجاتا ہے اور امن بحال ہوجائے تو یقیناً کچھ افغان مہاجرین تو واپس اپنے ملک جائیں گے لیکن سب نہیں جائیں گے اکثریت یہاں ہی رہ جائے گی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی افغانستان میں 30، 40 سالوں میں امن حوالے سے کافی تبدیلیاں آئی ہیں مہاجرین چلے جاتے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد واپس پاکستان آجاتے تھے۔ تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو 27 لاکھ افغانی پاکستان میں مقیم ہیں سب واپس ہوں، جس میں 14 لاکھ رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی نان رجسٹرڈ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں ایسے مہاجرین بھی ہیں جن کے یہاں بچے پیدا ہوئے ہیں، رشتے کیے ہیں، بعض کے بڑے بڑے کاروبار ہیں۔ کچھ نے پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے ہیں، پھر بھی اگر مثال کے طور پراگر افغان مہاجرین سب کے سب واپس افغانستان چلے جاتے ہیں اور امن سے مطمئن ہوجاتے ہیں تو یہاں جو مزدور طبقہ ہے ان کا پاکستان کو کافی فائدہ ہے یہ لوگ چھوٹے کاروبار جیسے زمینداری، دہاڑی وغیرہ سے منسلک ہیں اور کم اجرت پر کام کرتے ہیں جن کا یہاں کے مقامی مزودورں کے ساتھ مقابلہ ہے تو اکثر مقامی چھوٹے کاروبار والے ان کی مخالفت کرتے ہیں کہ یہ لوگ واپس چلے جائیں۔

اس کے علاوہ افغان مہاجرین میں بڑے بڑے کاروبار سے وابستہ لوگ ہیں جو قالین سازی یا ٹرانزٹ ٹریڈ کا کاروبار کرتے ہیں کافی پیسے کماتے ہیں اور پاکستان حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں جس کا ملک کی معیشت کو فائدہ ہے، رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا۔

سینئر تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی نے مزید کہا کہ اگر یہ لوگ واقعی میں اپنے وطن افغانستان چلے جاتے ہیں تو معیشت پر منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے کیونکہ کاروباری لوگ جانے سے بڑے بڑے کاروبار ختم ہوں گے پاکستانی حکومت کو ٹیکس نہیں ملے گا۔

مہاجرین جانے سے جرائم میں بھی کمی ہوسکتی ہے کیونکہ سرحد پر جو بھی اسلحہ یا منشیات وغیرہ سمگل ہوتے ہیں اس میں یہاں مقیم مہاجرین کا تھوڑا بہت ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔

جنگ کے کافی برے اثرات انسانی اور معاشی لحاظ سے دونوں پر پڑتے ہیں اور کوئی ادارہ یا کوئی بھی انسان اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر افغانستان میں امن بحال ہو جاتا ہے تو اس سے دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوگا اور اس کا دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا، ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد خان نے بتایا۔

پاکستان پر اثرات کی اگر بات کی جائے توہم مہاجرین کی پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے افغان مہاجرین کی واپسی میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے عالمی برادری کی طرف سے دی جانے والی امداد اور وسائل آہستہ آہستہ کم ہوچکے ہیں اور کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔اب اس کا بوجھ پاکستان پر پڑتا ہے لیکن ساتھ میں ان کے ساتھ امن اور دوستانہ تعلقات کے فوائد سے کوئی ادارہ انکار نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹرمحمد شاہد نے کہا۔

اگر افغانستان میں امن بحال ہوتا ہے توتجارتی حجم میں اضافہ ہوگا اور ساتھ میں پاکستان افغان سرحدوں کا احاطہ کرنے اور نگرانی کرنے کے لئے جو رقم فورسز پر خرچ ہوتی ہے وہ کم کرنے سے پاکستان معیشت کو فائدہ ہوگا اور پھر یہ وسائل غربت، بھوک، افلاس اور بیماریوں کی روک تھام پر خرچ کئے جائیں گے۔

ڈاکٹرمحمد شاہد ماہر معاشیات نے کہا کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخوا کی معیشت پر کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ واپس افغانستان جانے سے کاروباری لوگ اپنا کاروبار اپنے ملک میں کریں گےاس طرح اس خطے میں مالی رکاوٹیں پیدا ہوں گی / مالی وسائل کم ہوں گے / سرمائے کی کمی ہوگی۔

وہ مختلف کاروبار کی شکل میں اپنی مہارت یا ہنر بھی اپنے ملک واپس لے جائیں گے لیکن پھر بھی اس کے مثبت اثرات نفی کو پورا کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام کو چھوٹے کاروبار جیسے قالین سازی، ٹرانسپورٹ اور دیگر کاروبار جیسے مواقع فراہم ہوں گے کیونکہ چھوٹے کاروبار پر تقریباً افغانیوں کا قبضہ ہے۔

ان کی واپسی سے خیبر پختون خوا اور نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کے لئے روزگار اور دیگر معاشی مواقع پیدا ہوں گے۔ ‘معاشی لحاظ سے مقامی مزدرو طبقہ ان سے کافی متاثر ہوا ہے جو مزدرو 1000 روپے پر کوئی کام نہیں کرتا وہ کام افغان مہاجر 500 پر کر لیتا ہے، پشاور کے سینئر صحافی ارشد یوسف زئی نے بتایا۔

ارشد یوسف زئی نے کہا کہ افغان مہاجرین کے منفی اثرات کے ساتھ مثبت بھی ہیں جن کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، افغان مہاجرین قالین سازی کے کاروبار سے منسلک ہیں اور پشاور شہر اور حیات آباد میں کارخانوں میں افغان کاریگر ہیں اور اپنے ساتھ بہت سے مقامی لوگ کو بھی روزگار دیا ہے۔ یہ لوگ جو قالین بناتے ہیں وہ اعلی کوالٹی کے قالین ہوتے ہیں اور ان سے پاکستانی معیشت کو کافی سپورٹ ملتا ہے۔

ارشد یوسف زئی نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین کے ہر خاندان سے ایک یا دو لوگ بیرونی ممالک میں مقیم ہیں اور یہ لوگ غیرملکی کرنسی پاکستان بھیجتے ہیں اور ٹیکس دیتے ہیں جس کا اثر براہ راست پاکستان کی معیشت پر مثبت پڑتا ہے۔ اہم بات یہ کہ وہی پیسے پھر پاکستان میں ہی خرچ ہوتے ہیں جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

امن معاہدے اور معاشرتی اثرات پر افغانستان کے کابل شہر سے تعلق رکھنے والی قاندی صافی جو کئی سالوں سے پشاور میں مقیم ہیں نے کہا پہلے پاکستان آکر یہاں گھر بار بنانا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا اب اگر امن قائم ہوجاتا ہے اور وہ لوگ افغانستان چلے جاتے ہیں تو پھر سے ایک نئے سرے سے زندگی شروع کرنی ہوگی اور معاشی بحران سے گزرنا ہوگا۔ قاندی نے کہا کہ امن کے بعد افغانستان جانا چاہتے ہیں لیکن جانا اتنا آسان بھی نہں ہوگا۔

‘ افغان مہاجرین کو تمام انسانی حقوق حاصل ہیں،’ افغان کمشنریٹ پشاور

جو قانون اور پالیسی پاکستانی شہری کو حاصل ہے وہی انسانی حقوق 40 سالوں سےافغان باشندوں کو بھی پاکستان میں حاصل ہیں،ڈائریکٹر افغان کمشنریٹ فضل ربی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک افغان مہاجرین کے لئے کوئی الگ قانون سازی نہیں کی گئ۔

ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایف یو) کی جانب سے 1995 تک افغان مہاجرین کو خوراکی پیکج یا راشن وغیرہ دیا جاتا تھا پھر اسکے بعد جب یہ سلسلہ ختم ہوا تو ان مہاجرین نے اپنے پاوں پر کھڑا ہونے اور اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لئے کاروبار اور مزدوری شروع کی۔ تو پاکستان کے قانون کے مطابق وہ کہی بھی اپنی مرضی سے نقل وحرکت یا نقل مکانی کرسکتے ہیں اور اپنا کاروبار یا مزدوری کرسکتے ہیں۔ کاروبار کے لئے کسی بھی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈائریکٹر فضل ربی نے مزید کہا کہ 1979میں جب افغان مہاجرین نے ہجرت کرنا شروع کیا تو ان کے لیے اس وقت کوئی پالیسی نہیں تھی۔ طورخم سرحد سے خیبر پختونخوا جبکہ چمن سرحد کے راستے بلوچستان صوبے میں بغیر اعداد وشمار کے آئے۔ ایمرجنسی حالات ہونے کی وجہ سے افغان مہاجرین کی ان دنوں کی کوئی ڈیٹا یا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

افغان مہاجرین کی سب سے پہلی مردم شماری 2005 میں کی گئ وہ بھی اس لئے کہ ان کے لئے پالیسی اور بجٹ تیار کرنا تھا تو مردم شماری ضروری تھی 2005 میں یو این ایچ سی آر کی مالی مدد سے حکومت پاکستان نے مردم شماری کی، جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی تعداد 30 لاکھ 49 ہزار تھی۔ ڈائریکٹر افغان کمشنریٹ نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی افغان مہاجرین کو کوئی سہولیات دی جاتی ہیں یا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس میں گورنمنٹ آف پاکستان، گورنمنٹ آف افغانستان اور یو این ایچ سی آرکے فریق مل کر جمع ہوتے ہیں اور کوئی پالیسی یا قانون مرتب کیا جاتا ہے۔ پھر اسی پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان مہاجرین کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ ڈائریکٹ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے منسٹری آف سیفران ہے، سیفران پالیسی کے لیے سب سے پہلے ڈرافٹ بناتا ہے پھر اسکو کابینے میں پیش کیا جاتا ہے وہاں سے پاس ہونے کے بعد اسی کے مطابق عمل درآمد کیاجاتا ہے۔

افغان امن معاہدے اور افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے افغان کمشنریٹ کے ڈائریکٹر فضل ربی نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہوجاتا ہے تو جو بھی جانا چاہتا ہے جائیں گا لیکن رضا کارانہ واپسی ہوگی ان پر کوئی زبردستی نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ انکو خوشی ہے کہ افغانستان کے سابقہ حکومت کے کابینہ میں 20 سے 25 نمائدے وہ تھے جنہوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی ہے، اور انکو فخر ہوگا کہ امن قائم ہونے کے بعد وہ نوجوان جنہوں نے پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کی ہے افغانستان جاکر اپنے ملک کی دوڑ بھاگ سنھبال کر افغانستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button