خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

‘ میں تو خود قرنطینہ میں ہوں کورونا سے متاثرہ بیٹے کیلئے خوراک کا بندوبست کیسے کروں؟

 

خالدہ نیاز

پشاور پولیس سروسز ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لیے دوائیوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا جائے۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والوں کو حکومت نے قرنطینہ میں رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ نہیں کرسکتے کہ ان کے لیے کھانا لائے۔

ضلع خیبرسے بھی کورونا وائرس کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے اور متاثرہ مریض کو پشاور پولیس سروسز ہسپتال میں رکھا گیا ہے تاہم خوراک نہ ملنے پروہ مشکلات کا شکارہے۔

ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران متاثرہ شخص 30 سالہ عادل رحمان نے کہا کہ ان کو ہسپتال میں منرل واٹر کے علاوہ کسی قسم کا کوئی خوراک نہیں مل رہا اور ان سے کہا جارہا ہے کہ خوراک کا بندوبست خود کریں لیکن باڑہ میں موجود ان کے گھر والوں کو بھی گھرمیں بند کیا گیا ہے اور ان کو گھر سے نکلنے نہیں دیا جارہا تو ان کے لیے مشکل ہے کہ خود خوراک کا انتظام کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ سات آٹھ دن پہلے ان کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور سینہ خراب ہونے کے ساتھ ان کے گلے میں بھی انفیکشن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام تکالیف کے ساتھ ساتھ ان کو مسلسل تین چار روز تک تیز بخار بھی رہا اور وہ مقامی ڈاکٹر کے پاس گئے لیکن زیادہ بخار ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے ان کو انجیکشن نہیں لگایا جس کے بعد پشاور میں پرائیوٹ ہسپتال گئے جہاں سے ان کو پشاور پولیس سروسز ہسپتال ریفرکیا گیا اور ٹیسٹ کرنے کے بعد ان میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں ان کو علیحدہ کمرہ دیا گیا ہے اور ان کا علاج اچھے طریقے سے ہورہا ہے تاہم خوراک کے حوالے سے ان کو مشکلات درپیش ہے۔ انہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ اب ان کی طبیعت میں بہتری آرہی ہے اور ڈاکٹرز ان کا دن میں دو تین مرتبہ چیک اپ کرتے ہیں۔

عادل رحمان کے والد ایوب خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے بیٹے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد ضلع خیبرکے محکمہ صحت کے اہلکار آئے اور ان سے ان کی صحت اور گھر والوں کی صحت کے بارے میں سوالات کئے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ عادل رحمان شادی شدہ ہے اور ان کے چار بچے ہیں جبکہ وہ خود چائنہ میں تجارت کا کاروبار کرتے ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں اکثر چائنہ کا وزٹ کرتے رہتے ہیں جبکہ وہ اکتوبر 2019 میں چائنہ سے واپس آئے تاہم وہ اور باقی گھر والے بالکل صحتمند ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تبیلغ کے لیے گئے تھے اور گھر پہنچنے پربیٹے کی حالت دیکھ کر ان کوملیریا کے ٹیسٹ کروانے کے لیے پشاور ہسپتال لائے جہاں ڈاکٹرز نے ان سے کچھ سوالات کئے اور بعد میں کہا کہ اس کو پولیس ہسپتال لے جائیں اور وہاں ٹیسٹ کرنے کے بعد ان کے بیٹے میں وائرس کی تصدیق ہوگئی۔

ایوب خان نے کہا’ بیٹے میں تصدیق ہونے کے بعد محکمہ صحت کے اہلکاروں نے نہ ہی ان کے ٹیسٹ کئے گئے اور نہ ہی سکریننگ البتہ یہ کہا ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا اور نہ کوئی آپ کے گھر آسکتا ہے، میں نے ان سے کہا کہ میرے گھر کے مکینوں کی بہت ساری ضروریات ہے اس کے ساتھ ساتھ میرا مریض بھی ہسپتال میں ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ہم آپکی ساری ضروریات پوری کریں گے تاہم ابھی تک تو ہمیں کچھ بھی نہیں دیا گیا، نہ ہی مسجد جانے دیا جارہا’

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ایوب خان نے کہا کہ پشاور میں ہسپتال میں ان کے بیٹے کو خوراک نہیں دی جارہی اور ان کو گھر سے باہرنہیں نکلنے دیا جارہا تو ایسے میں وہ بہت پریشان ہیں کہ کرے تو کیا کریں؟

انہوں نے کہا کہ اگر ان کے بیٹے کے لیے خوراک کا بندوبست نہ کیا گیا تو اس وہ حصار کو توڑ دیں گے۔ ایوب خان نے مطالبہ کیا کہ ان کے بیٹے کو سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو اشیائے ضروریہ فراہم کیا جائے کیونکہ وہ تو گھر سے باہرنہیں نکل سکتے۔

دوسری جانب پولیس سروسز ہسپتال پشاور کے ایم ایس ڈاکٹر فخرالدین خٹک کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں مریضوں کو بروقت طبی امداد دی جارہی ہے تاہم مریضوں کو کھانا دینے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت نے کوئی احکامات جاری کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ہستال پشاور میں اس وقت کورونا وائرس کے شبے میں 12 مریض داخل ہے جن میں سے 3 افراد میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور باقی کے ٹیسٹ کے نتائج آنا ابھی باقی ہے۔

یہ حال نہ صرف پشاور کے ہسپتال کا ہے بلکہ صوبے کے باقی اضلاع میں بھی لوگ سہولیات کی کمی کا رونا رو رہے ہیں۔ لکی مروت سے بھی اس قسم کی شکایات سامنے آرہی ہے۔ اس حوالے سے ایک مشتبہ مریض کی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ کہہ رہا ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لکی مروت کے کرونا آئیسولیشن وارڈ میں کسی قسم کی سہولت موجود نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وارڈ میں پانی تک موجود نہیں، خرید کر لائے ہیں، کھانا بھی بازار سے خرید کر لائے ہیں۔ مریض کے بیٹے ادریس کا کہنا ہے کہ مریض کا کوئی علاج نہیں ہورہا اور نہ ہی کسی قسم کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ زکام کی دوا بھی خود خرید کر لائے ہیں۔ وارڈ میں دیگر بیڈز بھی پڑے ہیں، یہ کیسا آئسولیشن وارڈ ہے۔ واضح رہے کہ 63 سالہ محمد اقبال چند روز قبل سعودی عرب سے آئے ہیں اور کورونا وائرس کے شبے میں جمعرات کے روز سے ہسپتال میں ہے۔

دوسری جانب لکی مروت ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر حلیم الرحمن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کا نمبرمصروف تھا، کچھ دیر بعد وٹس ایپ کے ذریعے اس کاموقف لینے کی کوشش کی اور ایس ایم ایس بھی بھیجا پھر کال کی تو نمبر مصروف کردیا اور بعد میں انہوں نے اپنا نمبر بھی بند کردیا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button