جرائم

باجوڑ میں بدامنی کے واقعات: ‘ہمارے علاقے دوبارہ کسی بھی آپریشن کے متحمل نہیں’

بلال یاسر 

خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں رمضان المبارک کے آغاز سے ہی بدامنی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث عوام میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

گزشتہ دو تین ہفتوں کے دوران پے در پے واقعات کے مطابق 12 اپریل کو تحصیل خار کے علاقہ فجہ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے عرفان نامی نوجوان جاں بحق جبکہ نوید شدید زخمی ہوگئے۔ ایس ایچ او تھانہ خار سعید الرحمان کے مطابق فائرنگ کا واقعہ افطاری کے بعد پیش آیا تھا جبکہ باخبر ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والے نوجوان کو افغانستان میں امارات اسلامی کے سابقہ گورنر کنٹر حاجی عثمان کے قریبی ساتھی مانا جاتا تھا۔

اسی طرح 11 اپریل کو تحصیل خار کے علاقے زور بندر باگوڑی میں فورسز کے ساتھ جھڑپ میں تین افراد مارے گئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق منگل کے روز ہونے والے کارروائی میں سیکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں فورسز کی فائرنگ سے تین شدت پسند مارے گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق مارے گئے شدت پسندوں کی شناخت گل جمال، فضل اللہ اور عبداللہ کے ناموں سے ہوئی ہیں جبکہ ان تینوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ادھر 9 اپریل کو باجوڑ کے لغڑئ بازار میں دن دیہاڑے نامعلوم افراد نے جماعت اشاعت التوحید والسنہ کے دو کارکنان کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جن میں گٹ ماموند سے تعلق رکھنے والے مولانا گل نصیب موقع پر جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ساتھی مفتی شفیع اللہ شدید زخمی ہوئے جو تاحال ہسپتال میں زیر علاج ہے۔

26 مارچ کو بھی تحصیل ماموند کے علاقے ترخو بازار میں 25 سالہ نوجوان صدیق کو اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ عشاء کے وقت بازار سے گھر جا رہے تھے۔

موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاقے عمائدین نے بدامنی کے خلاف تمام سٹیک ہولڈرز کو انتظامیہ کے ساتھ ملکر عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور باجوڑ کے بزرگ سیاستدان شیخ جہانزادہ نے بتایا کہ قبائلی علاقے دوبارہ کسی بھی بدامنی اور آپریشن کے متحمل نہیں جبکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے رونما ہونے والے واقعات تشویشناک ہے اور اس کے خلاف ٹارگٹڈ کارروائی ہونی چاہئے۔

ان کے بقول معاشرے سے عسکریت پسندوں کا خاتمہ آسانی سے ممکن نہیں ہے جبکہ ان کے خلاف آپریشن سے پورا علاقہ متاثر ہوسکتا ہے اس لئے ہم اپنے علاقوں میں دوبار آپریشن کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہم علاقے کے تعمیر وترقی کے خواہاں ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button