‘پاکستان میں ہر سال 20 فیصد لوگ آلودہ ہوا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں’
رفاقت اللہ رزڑوال
بین الاقوامی سطح پر ہوا کا معیار جانچنے والے ادارے ورلڈ ائیر کوالٹی نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 20 فیصد لوگ آلودہ ہوا کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں گزشتہ سال 2020 کا جائزہ لیا گیا ہے جس کے مطابق آلودہ ہوا کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسکی بڑی وجوہات گاڑیوں کی تعداد میں بے دریغ اضافہ، بھٹہ خشت، کارخانو اور گھاس پھوس کو جلانے سے نکلنے والی دھوئیں کو قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں 106 ممالک کے ہوا کی معیار کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں آلودہ ہوا کے حوالے سے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کو پہلے ، ہندوستان کو تیسرے اور پاکستان کو سترھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
ماہرین صحت کی رائے
آلودہ ہوا کے نقصانات کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر اشفاق نے ٹی این این کو بتایا کہ آلودہ ہوا کی وجہ سے پھیپھڑوں اور جلد کی کینسر کے ساتھ دمہ، نمونیا، استمہ، چیسٹ انفیکشن اور برانکائٹس جیسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر اشفاق کا کہنا ہے کہ جو مریض پہلے سے دھوئیں یا آلودگی سے الرجک ہو تو ہوا کی آلودگی سے ایسے افراد کی موت واقع ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہوا کی آلودگی سے بچنے کیلئے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایکٹ اور سائنسی طریقوں پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔
ہوا کی کونسی انڈیکس صحت کیلئے مفید ہے
ورلڈ ائیر کوالٹی رپورٹ کے مطابق صاف ہوا کے لحاظ سے اسلا آباد کو پاکستان کا صاف ترین علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کی ائیر کوالٹی انڈیکس 110 بتائی گئی ہے جبکہ لاہور کو 163 انڈیکس کے ساتھ آلودہ شہر بتایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی کی روک تھام کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد اور عوام میں شعور نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز علاقائی اور دیہاتی سطح پر ہوا آلودہ ہوتی جا رہی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ہائے ماحولیات کے چیئرمین پروفیسر حزب اللہ کا کہنا ہے کہ ہوا کی کوالٹی انڈیکس مستقل نہیں بلکہ تبدیل ہوتی رہتی ہے، اُنہوں نے جمعہ کی شام ٹی این کو پشاور ریجن کی ہوا کی کوالٹی انڈیکس 153 بتایا.
"اسکا مطلب یہ ہوا کہ ریکارڈ شُدہ انڈیکس کے مطابق ہوا غیر صحتمند ہے اور پہلے سے بیماریوں میں مبتلا افراد آسانی سے مزید مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں”۔
ڈاکٹر حزب اللہ نے ہوا کی معیار کی انڈیکس بیان کرتے ہوئے کہ 1 سے 50 تک آئیڈیل، 51 سے 100 تک معتدل، 101 سے 150 حساس لوگ کیلئے خطرناک، 151 سے 200 تک غیرصحتمند اور 201 سے 250 تک خطرناک ہوا قرار دیا جاتا ہے۔
انہوں نے جاری کردہ رپورٹ کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ پاکستان میں ہرسال 20 فیصد لوگ آلودہ ہوا سے مرجاتے ہیں۔ انکے مطابق پاکستان میں زہریلی گیسز کی شرح نہایت کم ہیں مگر ریت، پرانے گاڑیوں کے دھوئیں اور پولن زرات ماحول کی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر حزب اللہ نے حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ایسے درخت اُگائے جائے جس سے پولن زرات کا اخراج کم ہو، انہوں نے کہا کہ 60 کی دہائی میں حکومت نے ملک کے بڑے شہروں میں جنگلی توت کے درختوں کو اُگایا تھا جسکی گروتھ جلدی واقع ہوجاتی ہے اور اسی سے ماحول میں پولن زرات پھیل جاتے ہیں جس کا خاتمہ اب مشکل بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سال 2000 میں بین الاقوامی سطح پر تمام گاڑیوں کی کمپنیوں کو پابند بنایا گیا تھا کہ ہر گاڑی کی سائلنسر میں کیٹیلک انورٹر آلہ نصب کیا جائے جسکے اندر کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے زہریلی گیس کو ماحول دوست گیس میں تبدیل کیا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اُن ہدایات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
جاری کردہ رپورٹ پر خیبرپختونخوا حکومت کا موقف
خیبرپختونخوا کے ماحولیات کے سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین شفیق افریدی نے جاری شُدہ رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو ماہ قبل سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں صوبے کے صنعتوں کو ہدایات جاری کی تھی کہ دھوئیں کے اخراج کیلئے فلٹریشن پلانٹ بنائیں۔
انہوں نے کہا کہ حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں 60 صنعتی اداروں کو ایس او پیز پر عمل نہ کرنے پر دو اور تین ہفتوں کیلئے سیل کیا گیا تھا جن میں کچھ صنعتی مالکان نے کرونا سے کاروبار متاثر ہونے کی وجہ سے وقت مانگا، جنہوں نے حلفیہ بیان دے کر کہا کہ دو ہفتوں کے اندر اندر فلٹریشن پلانٹس نصب کی جائے گی۔
"رہائشی علاقوں میں صنعتی سرگرمیوں کو فعال رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا جبکہ موزوں علاقوں میں صنعتوں کی قیام کیلئے بھی این او سی کی اجرا پر پابندی لگادی ہے”۔
شفیق افریدی نے کہا کہ اس وقت صوبے میں تقریباً 120 کارخانے فعال ہیں جن میں آدھے سے زیادہ ایس او پیز پر عمل درامد کر رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت کا ارادہ ہے کہ یورپی ممالک کے طرز پر ماحول کو سازگار بنانے کیلئے ایسا نظام لائے جس سے ہوا کی آلودگی میں کمی واقع ہوسکیں۔