خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمفیچرز اور انٹرویو

اخوند پنجو باباؒ کون ہیں، ان کی پیدائش پر خان گجو خان نے کیا خواب دیکھا تھا؟

سی جے بی بی انیتا افتخار

حضرت سید عبد الوھاب المعروف آخوند پنجو بابا (رحمۃ) کا شمار خیبر پختونخوا کے مشہور اولیاء کرام میں ہوتا ہے۔ حضرت سید عبد الوھاب المعروف آخوند پنجو بابا اآل حسنی ول حسینی سید تھے۔ اور ان کے والد بزرگ وار کا نام سید برھان الدین تھا اور سید غازی بابا رحمۃ کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت آخوند پنجو بابا رحمۃ ضلع صوابی کے گاؤں ترکئی میں پیدا ہوئے تھے۔

آپ کی پیدائش سے پہلے علاقے میں کئی سال سے خشک سالی تھی، علاقے کے سردار خان گجو خان نے، جس رات آخوند پنجو بابا پیدا ہونے والے تھے، ایک خواب دیکھا کہ میرے علاقے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جس کا نام سید عبد الوھاب ہے اور ان کی برکت سے ہم پر بارش ہوئی ہے اور پورا علاقہ تر ہوا ہے، درخت خوش ہیں انسان اور جانور سب خوش ہیں۔ جب صبح اٹھے تو بارش برس رہی تھی تو خان گجو خان نے اپنی ایک خادمہ کو بلایا اور اس سے کہا کہ تم جاؤ اور پتہ کرو کہ یہ سچ ہے کہ ہمارے علاقے میں عبد الوھاب نامی ایک بچہ پیدا ہوا ہے، میرا آدھا خواب تو سچ ثابت ہوا کیونکہ بارش برس رہی ہیں، جا کر معلوم کرو کہ بچے کی ولادت ہوئی ہے کہ نہیں۔

وہ خادمہ چلی گئی اور گھر گھر دیکھنے لگی، سید برھان الدین المعروف کے گھر آئی تو خادمہ نے پوچھا کہ آپ کے گھر بچہ پیدا ہوا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں، خادمہ نے پوچھا نام کیا رکھا ہے تو بتایا کہ ہم نے پہلے سے ہی اس بچے کے لئے سید عبد الوھاب نام سوچ رکھا تھا۔ یہ بات سن کر خادمہ بہت خوش ہوئی اور جلدی جلدی خان گجو خان کی خدمت میں حاضر ہوئی کہ حضور آپ کا یہ خواب بالکل سچ ہے اور یہ بچہ اس دنیا میں آیا ہے۔

خان گجو خان بہت خوش ہوا اور باقاعدہ عزت کے طور پر سید آخوند پنجو باباؒ کی سلامی کیلیے روانہ ہوئے۔ اس علاقے میں ایک رسم ہوتی تھی کہ جب کسی گھر میں شادی یا کوئی خوشی کا موقع آتا تو صوابی کے نوجوان لڑکے سب اکٹھے ہوتے اور اس گھر کے سامنے ڈھول بجاتے اور گھروں کے لوگ پھر ان کو پیسے دیتے اور انہی پیسوں سے پھر یہ لوگ شیرینی لے آتے اور اسے تقسیم کرتے۔ یہ ایک غلط رسم تھی۔ جب آخوند پنجو باباؒ دنیا میں تشریف لائے تو ان کی برکت کی وجہ سے یہ رسم بھی ختم ہوئی۔ وہ اس طرح کہ جب خان گجو خان سید عبد الوھاب المعروف آخوند پنجو باباؒ کو دیکھنے کے لئے جا رہے تھے تو سب نوجوان اکٹھے ہوئے تھے اور ڈھول بجا رہے تھے۔ حضرت سید برھان الدین رحمۃ نے ان سے فرمایا کہ ہماری اسلامی تعلیمات میں یہ نہیں آیا، یہ شریعت کے خلاف عمل ہے تو یہ بات خان گجو خان نے سن لی تو انہوں نے اسی وقت اعلان کیا کہ آج کے بعد ہمارے علاقے میں یہ رسم ختم اور جن کے گھر بھی خوشی آئے گی تو صرف شیرینی تقسیم ہو گی۔ عبد الوھاب کی رسمِ عقیقہ کے سارے انتظامات خان گجو خان نے خود پورے کئے
اور جب وہ سات ماہ کے ہوئے تو خان گجو خان نے عقیقہ کا اہتمام کیا۔

ان وقتوں میں ایک شہباز نامی شخص خان گجو خان کا خاندانی نائی یا حجام تھا، یہ شاہی نائی آخوند پنجو بابا کے لئے جب لایا گیا اور جب آخوند پنجو باباؒ کے بال کٹوانے لگا تو اس نے پہلے وضو کیا پھر دو رکعت نفل ادا کئے اور دعا کی کہ جیسے اس پاک بچے کی خاطر صوابی کے علاقے کا موسم اچھا ہوا، یااللہ میں سوال کرتا ہوں کہ اسی بچے کی خاطر میری مفلسی بھی دور فرما دے۔ اللہ نے وہ دعا قبول فرمائی۔

جب نائی نے بال کاٹ لئے تو خان گجو خان کی طرف سے اسے ایک بہترین شال ملا، ایک بہترین سفید گھوڑا انعام کے طور پر ملا اور کچھ نقدی بھی دی اور جس استرے سے آخوند پنجو بابا کے بال کٹوانے گئے تھے وہ بھی سونے کا ہو گیا تھا۔ شہباز نائی بہت خوش ہوا کہ ایسا بہترین انعام تو مجھے کبھی نہیں ملا۔ وہ خوشی خوشی گھر گیا اور بیوی سے کہا کہ آج مجھے ایسا انعام ملا ہے۔

حضرت آخوند پنجو باباؒ نے بچپن صوابی میں گزارا پھر لودھی خاندان میں اختلافات پیدا ہوئے تو وہ چوا گجر (پشاور) تشریف لے گئے۔ سید برھان الدین المعروف اخوند باباؒ اپنے والد (جو آخوند پنجو بابا کے دادا تھے) قیداد شاہ باباؒ کے ساتھ چوا گجر تشریف لے آئے۔ آخوند پنجو بابا اور ان کے چھوٹے بھائی عبد الرحیمؒ نے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے ہندوستان تشریف لے گئے۔ وہاں ایک مراد آباد شہر، گاؤں سنبلی میں آخوند پنجو بابا اور ان کے بھائی نے دینی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دونوں واپس چوا گجر تشریف لائے۔ ان ہی دنوں ان کے دادا قیداد شاہ وفات پا گئے۔ ان کا مزار آج بھی چوا گجر میں ہے۔ اس کے بعد آخوند پنجو باباؒ پشاور قلعہ بالا حصار چلے گئے۔ اس دوران آخوند پنجو بابا کے والد اور والدہ دونوں انتقال کر گئے۔ آخوند پنجو بابا نے قلعہ بالا حصار مغرب کی جانب ان کو دفن کیا۔

آخوند پنجو بابا رحمۃ 48 سال کی عمر میں دوبارہ اکبر پورہ تشریف لائے۔ ان کا گھر اور وہ جگہ جہاں ان کو غسل دیا گیا تھا وہ آج بھی موجود ہے۔ اکبر پورہ میں آخوند پنجو باباؒ نے پہلی مسجد کجھور مسجد بنائی اور اس میں 10 سال درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ اس کے بعد دوسری مسجد کی بنیاد رکھی جس کا نام پختہ مسجد ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخی مسجد ہے کہ اب بھی اسی حالت میں ہے۔ اس مسجد میں آخوند پنجو باباؒ نے 40 سال گزارے تھے۔ اس کی تاریخ میں آتا ہے کہ آخوند پنجو بابا رحمۃ درس وتدریس میں قیامت کی نشانیاں بیان کر رہے تھے تو ان کے ایک مرید خاص حاجی دریا خان بابا (جن کا روضہ چمکنی میں ہے) نے فرمایا کہ آپ کیا فرماتے ہیں قیامت کب ہو گی؟ وہ خاموش ہوئے تو پھر پوچھا گیا تو آخوند پنجو باباؒ نے فرمایا انہوں نے پیچھے محراب کو دیکھا اور بولا دریا خان کہ جب یہ محراب زمین میں چھپ گیا تو تب قیامت آئے گی۔ تب سے یہ مشاہدہ ہے کہ گندم کے دانے کے برابر اس مسجد کا ہال نیچے جا رہا ہے اور اب محراب بہت نیچے رہ گیا ہے۔

آخوند پنجو باباؒ کے 5 بیٹے تھے۔ سید عثمانؒ سب سے بڑے، پھر سید سلیمان، سید لقمان، سید بہاؤالدین، سید فرید الدین تھے۔ آخوند پنجو باباؒ کے بعد سید عثمان رحمۃ نے سلسلہ سنبھالا۔ ان کے بعد سید فرید الدین اور اسی طرح سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ یہ سلسلہ شمشاد پیر تک آ گیا۔

سید عبد الوھاب المعروف کو آخوند پنجو باباؒ اس لئے بولا جانے لگا کہ جب آخوند پنجو باباؒ 48 سال کی عمر میں اکبر پورہ تشریف لائے تو یہاں سرمست نامی ایک گمراہ پیر تھا، آخوند پنجو بابا نے ان کے خلاف آواز اٹھائی اور کجھور مسجد بنائی اور سب کو تعلیمات دینے لگے اور ارکان اسلام کے بارے میں بتانے لگے۔ پیر مست کو جب پتا چلا تو اس نے بھی آواز اٹھائی۔ اللّٰہ نے آخوند پنجو باباؒ کو کامیابی دی۔ آخوند پنجو بابا کی برکت سے پیر سر مست نے اکبر پورہ چھوڑ دیا اور بعد میں اس کو کسی نے تیراہ میں مار دیا تھا اور وہی دفن ہوا۔

آخوند پنجو باباؒ کو آخوند پنجو پیر سر مست نے بہت غصّے اور نفرت سے بولا تھا۔ آخوند ایرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی عالم، رہبر یا رہنماء کے ہیں اور پنجو پانچ ارکان اسلام کے ہیں یعنی پانچ ارکان کے عالم۔

ایک دفعہ سر مست کی محفل میں آخوند پنجو باباؒ کا ذکر ہوا تو سر مست نے بولا وہ تو آخوند ہے اس کو پانچ ارکان کے علاوہ آتا ہی کیا ہے۔ جب یہ خبر آخوند پنجو باباؒ کو پہنچی تو ان کو یہ نام بہت پسند آیا اگرچہ سر مست نے نفرت اور طنزیہ بولا تھا۔

آخوند پنجو بابا رحمۃ نے سب سے بولا کے اکٹھے ہو کر دعا کرو کہ میں اس نام سے مشہور ہو جاؤں۔ اللّٰہ نے ان کی دعا قبول کی اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ انہوں نے 5 مرتبے لوگوں کو دکھائے تھے۔

آزادی سے پہلے یہاں ہر جمعہ کو لنگر تیار کیا جاتا تھا اور اب ہر دن لنگر تیار ہوتا ہے مسافروں، مہمانوں کے لئے۔

آخوند پنجو باباؒ کی پیدائش 937 یا 945 سن عیسوی ہے اور 240 ہجری کو وفات پا گئے۔ ان کی عمر 103 اور بعض کے نزدیک 98 سال تھی۔ ان کا جنازہ بڑے بیٹے عثمانؒ نے ادا کیا تھا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button