میاں افتخار حسین کا بیٹے کے قتل کے ملزم کے خلاف دعویداری سے انکار، مگر کیوں؟
ندیم مشوانی
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے اپنے بیٹے کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزم کے خلاف دعویداری سے انکار کیا ہے۔
کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر عبدالقیوم سکنہ جنوبی وزیرستان کو چند سال پہلے سندھ پولیس نے گرفتار کیا تھا اور سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے دیگر واقعات سمیت میاں افتخار حسین کے جواں سالہ بیٹے میاں راشد حسین کو مارنے کا بھی اعتراف کیا تھا لیکن اب عدالت کے سامنے اعتراف جرم سے انکار کیا ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ ملزم عبدالقیوم کے خلاف صوبہ سندھ کے حیدرآباد شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور دھشتگردی کے مقدمات بھی درج ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق اے این پی کے صوبائی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین کو ملزم کی گرفتاری سے آگاہ کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار ملزم کے خلاف دعویداری کی جائے لیکن ‘انہوں نے انکار کیا ہے’۔
سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے خیبرپختونخوا پولیس سے بار بار خطوط کے ذریعے رابطہ کیا ہے مگر انہوں نے بھی کوئی عملی اقدام نہیں اُٹھایا ہے۔
یاد رہے کہ میاں افتخار حسین کے اٹھائیس سالہ اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو 24 جولائی 2010 کو اُس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا جب وہ نوشہرہ میں اپنے گھر کے قریب کھڑے تھے۔
اُس وقت میاں افتخار حسین صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراطلاعات تھیں اور اُنکے بیٹے کی موت کا مقدمہ ریاست پاکستان کی جانب سے درج کیا گیا تھا۔
قانونی ماہرین نے میاں افتخار حسین کی جانب سے دعویداری سے انکار کے حوالے سے کہا ہے کہ چونکہ مقدمہ انہوں نے اپنی جانب سے درج نہیں کیا تھا بلکہ ریاست اس میں مدعی تھا تو اس لئے ان کی دعویداری کا اب جواز نہیں بنتا۔
11 جنوری 2012 کو کراچی پولیس نے عبدالقیوم محسود کی گرفتار ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہیں، پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ملزم نے دوران تفتیش میاں راشد حسین کی ہلاک کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔