خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

گھریلو تشدد، 2020 میں 624 خواتین و بچیاں قتل

عاصمہ گل

اتوار کے روز ضلع چارسدہ کے تھانہ پڑانگ کی حدود موٹروے کے قریب لاوارث خاتون کی لاش برآمد ہوئی تھی جس کے بعد پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر قبرستان میں دفنا دیا گیا، بعدازاں پولیس نے مقتولہ کی ورثاء کو تلاش کرتے ہوئے ان کے ورثاء کا کھوج لگا لیا اور ان کے ورثاء مل گئے۔

مقتولہ صبیحہ کا تعلق تاج حضرو اٹک سے تھا، ان کے والد خیر علی نے پولیس کو بتایا کہ میں سعودی عرب میں تھا ابھی 15 دن ہوئے کہ پاکستان آیا ہوں، میری بیٹی کی 2016 میں علی رضا نامی شخص سے شادی ہوئی تھی، ایک سال بعد گھریلو تنازعہ کے بعد میاں بیوی میں طلاق ہو گئی تھی اور ان کی طلاق کو ایک سال ہو گیا تھا۔

خیر علی کے مطابق ان کی بیٹی مقتولہ صبیحہ کا ایک بیٹا بھی ہے، چھ ماہ قبل گھر سے غائب جس کے بعد ہم نے متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرائی گزشتہ روز سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کی تصویر دیکھ کر معلوم ہوا کہ میری بیٹی کو کسی نے قتل کر دیا ہے، ”ہماری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔”

لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ عورت فاونڈیشن کی رپورٹ "عالمی وباء کورونا کے دوران خواتین اور بچیوں پر تشدد” میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں پاکستان میں دو ہزار دو سو ستانوے خواتین تشدد کا نشانہ بنیں جن میں چھ سو چوبیس قتل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں بیشتر خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں جبکہ کئی خواتین خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوئیں۔

عالمی وباء کورونا کے ایک سال کے دوران خیبر پختونخوا میں تشدد کی وجہ سے ایک سو چوبیس خواتین اور بچیاں قتل کی گئیں جبکہ پنجاب میں تین سو دو، سندھ میں ایک سو تیرا، بلوچستان میں انیس اور گلگت بلتستان میں 66 خواتین تشدد کر کے قتل کر دی گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع بشمول پشاور، مردان، چارسدہ، نوشہرہ اور ہری پور میں گزشتہ سال عالمی وباء کے دوران مجعموعی طور پر خواتین پر تشدد کے 193 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں 20 خواتین غیرت کے نام پر قتل کی گئیں، 35 خواتین خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوئیں جبکہ 68 دیگر وجوہات کی بنا پر قتل ہوئیں۔

گزشتہ سال صوبے میں 34 خواتین کو جنسی زیادتی جبکہ 17 خواتین کے اغواء ہونے کے واقعات بھی رپورٹ ہو چکے ہیں اور ایک خاتون تیزاب گردی کا شکار رہی۔

انہی اعداد شمار کو رپورٹ میں مزید وضاحت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال صوبائی درالحکومت پشاور میں خواتین پر تشدد کے 64 واقعات رونما ہوئے جن میں گیارہ خواتین کی خودکشیاں، آٹھ خواتین غیرت کے نام پر قتل اور 30 خواتین کے دیگر وجوہات کی بنا پر قتل ہونے کے واقعات شامل ہیں۔

گزشتہ سال پشاور میں دو لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی ہوئی جبکہ دس خواتین کے اغواء کے مقدمات بھی درج ہوئے۔ اسی طرح رپورٹ میں مردان میں خواتین پر تشدد کی تفصیلات دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عالمی وبا کورونا کے دوران مجموعی طور پر 26 خواتین تشدد کا نشانہ بنی جس میں 13 عورتیں تشدد کے بعد قتل کی گئیں اور پانچ غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ جبکہ چار خواتین نے خود کشیاں کی اور دو اجتماعی ذیادتی کا شکار ہوئیں۔ مردان میں ایک خاتون کی اغواء کا مقدمہ بھی درج ہیں ۔ چارسدہ میں سات خواتین خود کشیاں کرنے پرمجبورہوئیں اور چار غیرت کے نام پر قتل کی گئیں جبکہ تین خواتین دیگر وجوہات کی بنا پر قتل کی گئیں، تین خواتین جنسی ذیادتی کا نشانہ بنی، تین خواتین اغواء بھی ہوئیں۔ اسی طرح کورونا وباء کے وقت نوشہرہ میں چھ خواتین قتل مقاتلے کا نشانہ بنی، تین غیرت کے نام پرجبکہ چھ نے خودکشیاں کی۔ نوشہرہ میں اٹھ خواتین جنسی ذیادتی اور دو کے اغواء کے مقدمات درج ہیں ۔ اسی طرح رپورٹ میں خواتین پر ہونے والے تشدد کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ہری پور میں سولہ خواتین قتل مقاتلے کا نشانہ بنی، انیس جنسی ذیادتی کا نشانہ بنی جبکہ سات نے خودکشیاں کی اور ایک خاتون اغواء بھی ہوئی۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ معاشرے میں خود کشی اور غیرت کے نام پر قتل کے ناقابل تلافی نقصان اور نتائج سامنے آئے ہیں۔ جوکہ کسی بھی نارمل معاشرے کے لئے کسی بڑی حادثے سے کم نہیں۔ عالمی وباء کورونا کے وقت خواتین اور بچیوں پر تشدد کے واقعات کی روداد میں ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کیسے ہمارے معاشرے میں بچیاں غیر محفوظ ہے اور وہ مختلف تکالیف سے گزرتی ہے اور بالا آخر ان کا موت واقعہ ہوجاتی ہے۔ واقعہ کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ لوئر دیر کے علاقہ میدان کی 12 سالہ مقتولہ مسماۃ ن اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ رہائش پذیر تھی اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 9 جولائی 2020 کو ان کی شادی علاقہ میں ایک نوجوان کے ساتھ کر دی گئی بچی کا والد کراچی میں یومیہ اجرت پر تھے۔ تاہم مسماۃ ن شادی کے چند دن بعد بیمار ہوئی اورتیمرگرہ کے ہسپتال میں زیر علاج رہی۔ مسلسل علاج معالجے کے باوجود ان کی صحت دن بدن بگڑتی گئی تو اس کے شوہر اور سسرال والوں نے آپس فیصلہ کرکے بچی کو بیماری کی حالت میں اپنی سوتیلی ماں کے گھر بھیج دی گئی جہاں 11 جولائی 2020 کو اس کی پراسرار موت واقع ہوئی۔

ان کی موت کے بعد بچی کی قتل کا مقدمہ لعل قلعہ میں درج کردیا گیا۔ ایف آئی آر ہونے کے بعد 21 جولائی کو پوسٹ مارٹم آنے کے بعد مقامی پولیس نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق بچی طعبی موت مری ہے تاہم ایف آئی آر میں پولیس نے بچی کی کم عمری کی شادی کی غرض سے نوعمربچیوں کی شادی پر پابندی ایکٹ کی تحت دائردرخواست پرگرفتاریاں عمل میں لائی۔ لیکن بچی کے کیسز کو دیر لوئر کے ایک مقامی میں غیرسرکاری تنظٰیم نے آگے بڑھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بچی کے موت کے مقدمہ کے اندارج میں پولیس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ بچی کی طعبی موت نہیں بلکہ سوتیلی ماں کی تشدد کی وجہ سے ہوئی ہے اور کہا کہ پولیس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پیشگی مقدمہ درج کرکے بچی پر تشدد کاتذکرہ رپورٹ میں نہیں کیا گیا۔

عورت فاونڈیشن کی ریذڈنٹ ڈائریکٹر شبینہ آیاز کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد اور ان کو درپیش چلینجز کے متعلق بتایا کہ صرف گھروں میں موجود خواتین نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر شعبہ میں موجود خواتین کو مختلف چلینجز درپیش ہیں۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ خواتین کو معاشی اور معاشرتی مشکلات کے ساتھ ساتھ کئی ایشو کا سامنا ہے اگر بلخصوص خواتین کی ہراسمینٹ یا دیگر وجوہات کی بنا پر زد کوب کیے جاتے ہیں تو اس کے لئے جہاں پر طے شدہ قوانین جوکہ پہلے سے موجود ہے اس کی عمل درآمد کے لئے کمیٹیاں بھی بنائی گئی لیکن جہاں کمیٹٰاں پہلے سے موجود ہے وہاں جب ان کے پاس خواتین کی ہراسمینٹ یا دیگر ایشوز کے متعلق کسیز جاتے ہیں تو اس سے بڑی مشکل وہاں پر یہ پیش آتی ہے کہ کمیٹیوں میں موجود خواتین کو درپیش چلینجز سے آگاہ ہی نہیں ہوتے۔

اکثر جگہوں پر ہم نے دیکھا ہے کہ کسی شعبہ سے خواتین اپنی تحفظ کے متعلق کوئی شکایات پیش کرتی ہے تو متعلقہ شبعہ میں موجود حکام کوشش کرتے ہیں کہ وہ متاثرہ عورت کی مدد کے بجائے اپنی دفتر کے ہم کار کو بچانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں اور جو متاثرہ خاتون ہوتی ہے ظاہر ہے وہ ان مشکلات کو برداشت کرتی رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انصاف نہ ملنے کی صورت میں خاموشی اختیار کرنے سے ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا واقعہ رونما ہوتا چلا جاتا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ خیبر پختونخوا حکومت کا صوبائی محستب کے ادارے کو مزید مستحکم کرنےکی ضرورت ہے اور اس کا دائر کار بڑھا کر صوبے کے تمام اضلاع تک وسعت دینی چاہیے کیونکہ ہراسمینٹ کے واقعات صرف پشاور تک محدود نہیں یہ واقعات آئے روز مختلف اضلاع سے رپورٹ ہو تے رہتے ہیں ، دوسری اہم اور ضروری بات ایسے واقعات میں خواتین کو خود پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے اگر کوئی عورت کسی بھی قسم کی ہراسمینٹ کا سامنا کر رہی ہوتو ہونا یہ چاہیے کہ وہ ایک توانا آواز بن کر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس میں اس کو شرمندگی ہوگی یا معاشرے میں ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا نہ پڑھ جائیں ۔ چھپ ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل کے خلاف آواز اٹھانے سے ان کا حل ممکن ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button