”خیبر کے خصوصی افراد مشکلات کا شکار، حکومتی اقدامات صرف کاغذات تک محدود”
محمد زاہد
30 سالہ نوجوان حضرت اللہ، جن کا تعلق تحصیل جمرود سے ہے اور تنظیم معذوران کے صدر اور پیدائشی طور پر بائیں پاؤں سے معذور ہیں، نے 2016ء میں ضلع خیبر میں معذور افراد کی حالت زار دیکھ کر خیبر سپیشل ویلفیئر آرگنائزیشن نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا بنیادی مقصد مقامی معذوروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے انہیں درپیش مسائل کو حل کرانا ہے۔
صدر حضرت اللہ کے مطابق تنظیم کی ہر سال تنظیم سازی کی جاتی ہے جس میں ایگزیکٹیو ارکان بھی منتخب کئے جاتے ہیں۔
ٹی این این کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ تحصیل جمرود میں ان کی تنظیم کے ساتھ 3 ہزار سے زائد معذور افراد رجسٹرڈ ہیں جن میں اندھے، بہرے، گونگے،لنگڑے اور دیوانوں سمیت دیگر خصوصی افراد شامل ہیں جبکہ ان اعداد و شمار میں مختلف عمر کے مرد حضرات و خواتین شامل ہیں۔
انہیں درپیش مسائل کے حوالے سے صدر حضرت اللہ آفریدی نے کہا کہ ضلع خیبر کے معذور افراد انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، سرکاری و غیرسرکاری ادارے انہیں درپیش مسائل کیلئے بروقت اور سنجیدہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں اور جو دعوے کئے جا رہے ہیں وہ صرف کاغذات تک محدود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ضلع خیبر کے خصوصی افراد کیلئے معذور پن ان عذاب بن چکا ہے اور صحت، تعلیم، روزگار، وظائف، بھرتیوں سمیت تمام سہولتوں سے محروم ہیں۔
حضرت اللہ نے بتایا کہ بطور تنظیم کے صدر انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر اپنے حقوق کیلئے آواز اُٹھائی ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی جبکہ ان کی تنظیم نے گذشتہ 5 سال میں 2200 خصوصی افراد کیلئے ڈیس ایبلڈ سرٹیفکیٹ بنائے ہیں جبکہ درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے تنظیم ہر فورم پر پیش پیش ہے اور وہ پُرامید ہیں کہ مستقبل میں ان مسائل کو حل کر کے دم لیں گے۔
45 سالہ گل عسکر آفریدی جو کہ معذور اور جمرود بازار میں گذشتہ کئی سالوں سے اخبار فروشی کا کام کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں اور بمشکل گھر کے اخراجات پوری کرتے ہیں اور معذور ہونے کے باعث وہ کوئی دوسرا کاروبار بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ ان کی صحت انہیں اس کی اجازت نہیں دیتی اور مجبور ہو کر اسی طرح زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے انہیں ماہانہ وظیفہ مل جائے تو اس سے ان کے مالی مسائل میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے معذور افراد کا کہنا ہے کہ معاشرے میں بھی انہیں وہ مقام نہیں دیا جا رہا جو انہیں دینا چاہئیے، ہر کوئی مختلف نام اور القاب سے پکارتا ہے جس سے ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔
ان معذور افراد کا سرکاری و نجی اداروں سے مطالبہ ہے کہ ضلع بھر میں خصوصی افراد کے کیلئے سلائی کڑھائی مراکز، تعلیم، علاج معالجہ کی بہترین سہولیات، وہیل چیئرز کی فراہمی، ماہانہ وظائف، کوٹہ سسٹم کو 02 فیصد سے بڑھا کر 05 فیصد، کرایوں میں خصوصی رعایت سمیت دیگر سہولیات دیئے جائیں تاکہ ان کے مشکلات کا فوری طور پر ازالہ ہو سکے۔
اس حوالے سے جب سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ضلع خیبر کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ضلع خیبر کی تینوں تحصیلوں جمرود، لنڈی کوتل اور تحصیل باڑہ میں ان کے ساتھ رجسٹرڈ شدہ خصوصی افراد کی تعداد 6633 ہے جس کیلئے تین دستکاری مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں پر انہیں سلائی کڑھائی سکھائی جا رہی ہے، ہر مرکز میں 50 افراد کو تربیت دی جا رہی ہے اور کورس مکمل کرنے پر انہیں مکمل کٹس بھی مفت دیئے جاتے ہیں تاکہ اس سے اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں جبکہ 2017-18 کے سالانہ ترقیاتی فنڈز میں 30 خصوصی افراد کو فی کس بیس ہزار روپیہ، ٹرائی سائیکل، وہیل چیئرز، سلائی مشینیں فراہم کی گئیں تاکہ ان کی مالی مشکلات کم ہو سکیں جبکہ اُسی سال 32 خواتین کو بھی سلائی مشینیں حوالہ کی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ نابینا افراد کیلئے تحصیل باڑہ میں ایک ماہ کے اندر سکول کھولا جا رہا ہے جہاں پر انہیں مفت تعلیم دی جائے گی۔
محکمہ سوشل ویلفیئر کے اہلکار نے بتایا کہ ضلع بھر کے خصوصی افراد کو معذوری کے سرٹیفکیٹ ایک دن کے اندر مفت میں دیئے جا رہے ہیں جس پر خصوصی افراد مفت اور تاحیات شناختی کارڈ حاصل کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی محکمہ کی جانب سے ملنے والی مراعات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ محکمہ کے ساتھ رجسٹریشن کا عمل انتہائی آسان ہے اور فارم پُر کرنے کے بعد ایک عدد تصویر جس سے معذوری ظاہر ہو اور شناختی کارڈ لگا کر حاصل کر سکتے ہیں، ”تمام خصوصی افراد سے اپیل ہے کہ وہ اپنے لئے معذوری سرٹیفکیٹ بنائیں تاکہ وہ حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات سے مستفید ہو سکیں۔”
یاد رہے کہ 9 مارچ کو ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے جرگہ ہال میں بیت المال خیبر کی طرف سے سپیشل پرسنز میں چیک تقسیم کرنے کے حوالے سے پروگرام کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بیت المال خیبر کی طرف سے تیس افراد میں تین لاکھ روپے یعنی فی کس دس دس ہزارر وپے کے چیک تقسیم کئے گئے جن میں مستحق خواتین بھی شامل تھیں۔