چارسدہ, دہشت گردی کی لہر سے متاثرہ لائبریری بالآخر فعال کر دی گئی
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پہلی بار عوام اور طلبہ کیلئے تقریباً 10 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک سرکاری ‘پبلک لائبریری چارسدہ’ کے نام سے کھولی گئی ہے۔ لائبریری دو سال قبل قائم کی گئی تھی مگر 2020 کے اواخر تک سیکورٹی فورسز قیام پذیر تھی اور اکتوبر دوہزار بھی سے عوام کیلئے مکمل فعال ہوگئی جہاں پر تقریباً 75000 کتابیں رکھی گئی ہے۔
اس لائبریری میں مختلف عنوانات کے ساتھ کتابیں،اخبارات اور رسائل موجود ہیں۔ لائبریری حکام کے مطابق طلباء ، عوام اور سکول کے بچے یہاں مطالعہ حاصل کرسکتے ہیں اور اندراج یا رکنیت کے بعد کتابیں اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔
لائبریری کی سربراہ شہلا طاہر نے ٹی این این کو بتایا کہ یہ لائبریری سال دوہ 2018 میں نوکروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپے کی لاگت سے تعمیر کئی گئی تھی۔
اُن کے مطابق "چونکہ سیکورٹی کے حوالے سے علاقے کی صورتحال بہتر نہ تھی تو امن کی بحالی کی خاطر یہاں پر تقریبا دو سال تک سیکورٹی فورسز رہائش پذیر تھی، اُنکے جانے کے بعد لائبریری عوام کیلئے فعال کردی گئی”۔
شہلا طاہر نے کہا کہ لائبریری میں 7500 کی قریب مختلف موضوعات پر کتابیں موجود ہیں جن میں فلسفہ، تاریخ، ادب، زراعت، تحقیق کیلئے حوالہ جاتی اور جغرافیائی کتابیں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لائبریری کی فعالیت کے ایک سال بعد انتظامیہ کے ساتھ 100 سے زائد طلبا و طالبات، ایم فل، پی ایچ ڈی، بچوں اور دیگر مطالعے کی شوقین افراد نے صرف 300 روپے میں رجسٹریشن کروائی ہے، "جو نہ صرف یہاں اپنی مطالعہ سٹڈی کے ایک خاموش ماحول میں کرسکتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ کتابیں اپنے گھر بھی لے جاسکتے ہیں”۔
مذکورہ لائبریری چارسدہ کے پوسٹ گریجویٹ پڑانگ کے قریب تقریبا ایک ایکڑ کی زمین پر واقع ہیں، لائبریری میں کینٹین، واش رومز، ڈیجیٹل لائبریری اور اکیڈمک اجتماعات کیلئے 300 کرسیوں پر مشتمل ہال بھی موجود ہیں۔
لائبریری کے اوقات کار پر بیشتر طلبا و طالبات نے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ لائبریری پیر سے جمعہ کے دن صبح 9 سے شام 4 بجے تک کُھلی رہتی ہے جبکہ انکے ہفتے اور اتوار کو چُھٹی ہوتی ہے، جس وقت لائبریری بند ہوتی ہے تو اس وقت یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات فارغ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کتابوں کی مطالعے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اوقات کار پر بات کرتے ہوئے شہلا طاہر نے کہا کہ فی الحال لائبریری نئی کھُلی ہوئی ہے جس میں لوڈشیڈنگ کے دوران کوئی متبادل نظام، سیکورٹی کی عدم موجودگی اور عملے کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہیں۔
لائبریرین کے مطابق” اگر محکمہ ارکائیو ڈائریکٹریٹ پشاور ہمیں ایک سپرنٹنڈنٹ، سینئر کلرک، کیٹیلاگر، دو عدد لائبریرین ٹو، دو کلاس فور، ایک مالی اور ایک چوکیدار کے ساتھ دیگر سہولیات فراہم کرے تو لائبریری کو ہفتہ اور اتوار کو بھی سیکنڈ شفٹ تک چلا سکتے ہیں”۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ڈیجیٹل لائبریری کا نظام بھی ہے جس کے ذریعے طلباء لائبریری میں کمپیوٹر سسٹمز میں انسٹال شُدہ سافٹ وئیر کیذریعے دُنیا کے سب سے بڑے بڑے لائبریری برٹش لائبریری لندن، کانگریس لائبریری، نیویارک لائبریری سمیت پاکستان کے کتابیں پڑھ سکتے ہیں، لیکن لوڈشیڈنگ کی وجہ سے طلبا مطالعے سے قاصر رہتے ہیں۔
لائبریری میں مطالعے کیلئے آئے ہوئے ایم فل، ماسٹر کے طلبا مطالعہ میں محو تھیں، مقابلے کی امتحان کی تیاری کیلئے بیٹھا ہوا طالب علم فضل حلیم کا کہنا ہے کہ چارسدہ میں لائبریری کا قیام طلبا کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔
فضل حلیم کا کہنا ہے کہ ” لائبریری کی عدم موجودگی میں ہم پاکستان کے دوردراز علاقوں سے کتابیں منگواتے تھیں، جس پر وقت اور کافی پیسے خرچ ہوتے تھے مگر یہاں پر ہر قسم کی کتابیں ملنے سے ہمارے خرچوں میں کمی آئی ہے”۔
کاظم علی شاہ جنہوں نے کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد سے انجنئرنگ میں ڈگری حاصل کرچکے ہیں، انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ چاہتے ہیں کہ کتابوں کے ساتھ منسلک رہے۔
انکا کہنا ہے کہ ” مطالعے کیلئے سازگار ماحول کا ہونا ضروری ہے اور لائبریری میں وہ ان سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے”۔
لائبریری میں عمررسیدہ سرکاری و غیرسرکاری افراد کی بھی گہما گہمی دیکھنے کو ملتی ہے، ایک سابقہ سکول پرنسپل اور ماہر تعلیم بشیر ربانی کا کہنا ہے کہ آج کل سوشل میڈیا کے دور کے باوجود بھی کتاب کی افادیت اپنی جگہ پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک آج کل نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا استعمال کتاب کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے لیکن سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کرام کو طلبا کو کتاب کی اہمیت کی طرف راغب کرنا ہوگا۔
خیبرپختونخواہ کی قائم شدہ لایبریریوں پر محکمہ آرکائیو و لائبریریوں کے مسائل پر بات چیت کرنے کی کوشش کی جہاں پر ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایا کہ اس وقت خیبرپختونخواہ کے اٹھارہ اضلاع میں سرکاری لائیبریریوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ لیکن صوبائی حکومت کی طرف سے بجٹ کی فراہمی نہایت کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ تمام لائبریریوں میں بجلی کا متبادل نظام، فوٹو اسٹیٹ، نئی نئی کتابوں اور دیگر سہولیات کیلئے فنڈ مہیا کرے تاکہ طلبا ایک پرسکون میں ماحول میں اپنی مطالعہ جاری رکھ سکیں۔