”آج تم یاد بے حساب آئے”
سلمان یوسفزے
”ارے یار کل ہی کی تو بات ہے جب ہم اکٹھے رات کو نئے سال کا جشن منانے کیلئے باہر جانے کی تیاری میں تھے، تمہیں یاد ہے نا ہم نے آپ کی بہت منت سماجت کی تھی پر آپ باہر جانے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور پھر ہم نے مجبوراً آپ کو کمرے میں اکیلا چھوڑ دیا اور جب واپس آئے تو آپ تاریک رات کی آغوش میں نیند کے مزے لے رہے تھے۔”
وہ مسلسل بات کر رہا تھا اور میں اس کی معصومیت کو انجوائے کر رہا تھا، پتہ نہیں کیوں مجھے اس کے بچپنے میں خود اپنی تصویر نظر آ رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کہ وہ میرے ہی نقشہ قدم پر چل رہا تھا لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔
”جانی!” وہ اپنے مخصوص انداز میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ”یہ سال بہت بکواس رہا۔” میں نے ”ھمممم” کر کے کہا، ”ہاں! لیکن تمہیں اس سے کیا لینا دیا، امیر گھر کے لڑکے ہو، باپ تم پر پانی کی طرح پیسہ بہا رہا ہے اور تم یہاں فلیٹ میں دن رات پڑے رہتے ہو، سگریٹ پینے اور فضول خرچی کے علاوہ تمہارا اور کام کیا ہے، تمہیں کب سے یہ احساس ہونے لگا کہ یہ سال بکواس اور فضول گزر گیا”
اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سے میں سمجھ گیا کہ لاک ڈاون کے دوران جب وہ تین مہینے تک گھر پر پڑا رہا تب وہ کون سی پابندیایوں کا پابند رہا۔ ماں باپ کی اکلوتے اولاد ہونے کی وجہ سے وہ کافی بگڑ گیا تھا، شہر میں پڑھائی کے لیے آیا تھا لیکن یہ تیسرا سال ہے کہ وہ مسلسل فیل ہو رہا ہے اور اسے کوئی پرواہ ہی نہیں۔
”ارے یار! سمجھ جاؤ ناں!” اس نے فلمی انداز میں کہا! ”چپ چپ! نام مت لینا اس کا، وہ تمہیں استعمال کرتی ہے اور تم پاگل بن گئے ہو اس کے پیچھے، اسے تم سے نہیں تمھاری فضول خرچی سے محبت ہے، آج تک اس نے تمھارے لیے کیا کیا ہے؟” میں نے کچھ زیادہ سنجیدہ ہو کر کہا۔
وہ ہاتھ میں چائے کا کپ لئے میرے پاس آیا لیکن آج اس کے ہاتھ میں سگریٹ نہیں تھا۔ وہ ہمارے ساتھ پچھلے تین سالوں سے ایک ہی کمرے میں رہتا ہے، وہ اتنے سگریٹ پیتا تھا کہ کبھی کبھی مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ سگریٹ نہیں سگریٹ اسے پیتا ہے۔
”یہ لو تمھارے لئے تیز کڑک چائے بنائی ہے، کیا یاد کرو گے۔” وہ اپنے محسوس انداز میں کہنے لگا۔ ”جانی! کل نیا سال شروع ہو جائے گا، تمہارا کیا خیال ہے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟”
میں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور کہا، ”بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن پہلے تم یہ بتاؤ کیا کہ تم نئے سال میں اپنی کون سی بری عادت چھوڑنے والے ہو جو تم اس سال کرتے آ رہے ہو؟” وہ بہت بے تابی سے میری بات ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا اور جیسے ہی اسے بات کرنے کا موقع ملا تو فوراً بولا،
”ہاں! میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نئے سال سے پہلے سگریٹ پینا چھوڑ دوں گا اور آج تیسرا ہفتہ ہونے کو ہے میں نے سگریٹ کو ہاتھ تک نہیں لگایا اس لئے تو سر درد سے پھٹا جا رہا ہے، بھائی بن کر سر دبا دو مہربانی ہو گی۔”
میں اس کا سر دبانے لگا اور پوچھا، ”تم پچھلے گیارہ سالوں سے سگریٹ پی رہے تھے یوں اچانک سگریٹ نوشی ترک کرنے کے پیچھے کیا راز ہے؟” اس نے حسب معمول آنکھ مارتے ہوئے بات ٹالنے کی کوشش کی لیکن میں نے اسے سچ بولنے پر مجبور کر دیا۔ اب وہ انتہائی سنجیدہ اور مہذب انداز میں بات کرنے لگا اور کہا،
”دیکھ بھائی جولی کو میرے سگریٹ نوشی کے بارے میں پتہ چل گیا تھا اور اس نے مجھ سے زبردستی وعدہ لیا کہ اب میں کبھی بھی سگریٹ نہیں پیوں گا، اور تمہیں پتہ ہے۔۔۔” وہ میرے قریب آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہنے لگا، ”جولی نے میرے لئے خدا سے خصوصی دعا مانگی ہے کہ خدا مجھے سگریٹ نوشی سے نجات دلائے۔”
یہ سن کر میرے منہ سے ہنسی نکل گئی، مجھے عجیب سا محسوس ہونے لگا اور کچھ لمحے کے لئے بالکل بھی مجھے یہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ لیزی کی طرح بگڑا لڑکا کیسے سگریٹ نوشی ترک کر سکتا ہے اور جولی کی طرح ضدی اور لاپرواہ لڑکی، جسے شاید ٹھیک سے کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو، کیسے اس کے لئے خدا سے دعا مانگنے لگ گئی، دونوں ایک دوسرے کے لئے بدل گئے۔
میری چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اور لیزی لائٹ بند کر کے سو گیا لیکن میرے ذہن میں کئی سوالات نے جنم لیا کہ کیوں ہمیں خود پر اعتماد نہیں، ہماری سوچ کیوں ایک مخصوص جگہ پر آ کر رک جاتی ہے، ہم کیوں خود کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہمیں کیوں ہر وقت اپنی ہی فکر رہتی ہے، ہمارے اردگرد ایسے ہزاروں چہرے ہوتے ہیں جنہیں ہماری مدد کی ضرورت ہوتی ہے پر ہم نے کبھی ان کی آہ تک سننے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
ہم کیوں اتنے خود غرض ہو جاتے ہیں کہ اللہ کی تقسیم پر بھی انگلیاں اٹھاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہر جگہ خود کو اعلی ظاہر کریں، کسی کو اس کی ذات کا طعنہ تو کبھی کسی کو اس بات پر ریجیکٹ کرتے ہیں کہ فلاں تو ہماری برابری کا نہیں ہے، ہمارا اور ان کا تو سٹیٹس ہی نہیں ملتا۔
مانا کہ ہم غلطی فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور اکثر اوقات بدگمانی کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں سے مضبوط رشتے چھوٹ جاتے ہیں اور پھر جب تک ہماری سوچ ٹھکانے آتی ہے تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ہر گزرتا سال ہم سب کی زندگیوں پر اپنے اپنے طریقے سے اثر چھوڑتا رخصت ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی کا کوئی بچھڑتا ہے یا کسی کو کوئی ملتا ہے، کسی کو نوکری ملتی ہے، کوئی بیرونِ ملک سفر کرتا ہے، کسی نے نئی جگہ دیکھی ہوتی ہے تو کسی نے نیا گھر بنایا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
بہت سے لوگوں کی زندگی میں سال کا آخری دن اس پورے سال کے گزرے دنوں کی طرح ایک عام سا دن ہوتا ہے اور وہ اسے ایک عام دن کی طرح ہی گزار دیتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس آخری دن پورے اہتمام سے نہ صرف گزرے سال کو یاد کرتے ہیں بلکہ اپنا احتساب بھی کرتے ہیں۔ بقول فیض صاحب
کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے