‘کورونا وائرس کا شکارہونے سے پہلے میں اس کو صرف افواہ سمجھتا تھا لیکن اب نہیں’
مصباح الدین اتمانی
‘جب چین میں کورونا وائرس کی بات ہو رہی تھی، تب میں نے اسے دیکھا اور محسوس نہیں کیا تھا، ہمارے علاقے حتیٰ کہ ملک میں بھی کوئی اس وائرس سے متاثر نہیں ہوا تھا تو میں اس کومحض افواہ ہی سمجھتا تھا کیونکہ ہمارے علاقے میں مواصلاتی نظام نہ ہونے کے برابرہے اس لیے ہمیں چیزوں کا بعد میں پتہ چلتا ہے’
یہ کہانی قبائلی ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے قاری فضل سبحان کی ہے جو حال ہی میں کورونا وائرس سے صحتیاب ہوئے ہیں۔
قاری فضل سبحان نے بتایا کہ جب وہ کورونا وائرس کا شکارہوئے انکی حالت بہت عجیب ہوگئی تھی۔ ‘میرے سینے میں درد تھا،سانس لینے میں بھی دشواری تھی، ایسے کھانسی شروع ہو گئی جو میرے لئے ناقابل برداشت تھی، دو دن بعد میرے جسم کا ٹمپریچر 102 ہوا ، جو گولیوں اور انجیکشنز کے ساتھ کم ہونے والا نہ تھا،میں دن میں 9، 9 گولیاں کھاتا تھا،
مسلسل ٹمپریچر اور سانس کی تکلیف کیوجہ سے میں خوراک سے قاصر تھا، کوشش کی باوجود جب ڈاکٹرز ناکام ہوئے تو انہوں نے کورونا ٹیسٹ کا مشورہ دیا، ٹیسٹ لیا گیا تو کورونا کی تشخیص ہو گئی، پہلا تھوڑا دباو میں ایا پھر یہ خیال آیا کہ اللہ نے جو لکھا ہے وہی ہوگا تو بالکل مطمئن ہوا اور ہسپتال میں داخل ہوگیا’
قاری فضل سبحان نے کہا کہ ہسپتال میں دوسرے روز بہتری محسوس ہوئی، 8 دن وہاں گزارے، دن بدن بہتری محسوس ہوتی تھی۔ ہسپتال میں سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے قاری فضل سبحان نے کہا کہ ہسپتال میں غیر معیاری کھانا ملتا تھا،اسلئے دو دن کچھ نہیں کھایا، پھر سیاسی جماعت کا ایک بندہ ایا جو خود ڈاکٹر تھا اس کے کہنے پر کھانے کو تھوڑا بہتر کیا گیا لیکن پھر ہمارے لئے گھر سے کھانا اتا تھا، ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے مہیا کردہ خوراک میں سے ہم صرف پانی لیتے تھے، ہاں لیکن ہسپتال میں ڈاکٹروں کا عملہ بہترین کام کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب سے خود وہ اس بیماری کا شکار ہوئے ہیں تب سے ان کو یقین ہوگیا ہے کہ یہ بیماری موجود ہے لیکن اب بھی اس کے پھیلنے کے حوالے سے ان کے شکوک وشبہات ہیں کیونکہ ان کے بچے ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، ان کو ہاتھ سے پکڑ کر واش روم لے جاتے تھے، ان کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے، لیکن الحمداللہ سب کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اب تک تحقیق کے مطابق کورونا وائرس متاثرہ شخص سے دوسروں تک آسانی پھیلتا ہے اور متاثرہ شخص سے ہاتھ ملانے اور اس کے قریب جانے سے گریز کرنا چاہیئے۔
تاہم قاری فضل سبحان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ اب اس بیماری کو مانتے ہیں لیکن ان کے علاقے میں بہت سارے لوگ اب بھی اس بیماری کو ماننے سے انکاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیماری اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں دنیا کا عذاب صرف کافروں پر نہیں مسلط کرتا، مومن بھی متاثر ہوتےہیں، لیکن فرق یہ ہیں کہ مومن کیلئے امتحان ہیں اور کافر کیلئے عذاب۔
انہوں نے کہا کہ انکی نظر میں لوگ اس بیماری کے پریشر کیوجہ سے خراب ہوتے ہیں، پہلے اللہ سے عافیت کی دعا مانگے اگر متاثر ہو جائیں تو یہ سوچ لیں کہ میرے لئے اللہ نے جو پسند کیا ہے وہی ہوگا لیکن اس کے ساتھ احتیاط بہت ضروری ہے۔
دوسری جانب ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر باجوڑ ڈاکٹر عدنان نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ باجوڑ کے لوگ کورونا وائرس کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے تاہم انکی ٹیمیں شروع سے اس حوالے سے آگاہی مہم چلارہی ہیں تاکہ لوگوں کو اس بیماری اور اس کے حوالے سے بتاسکیں اور ان میں شعور اجاگر کریں کہ لوگ احتیاطی تدابیر اپنائے۔
انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ابھی تک اس کیلئے کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی لہذا احتیاط بہت ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے لوگوں میں شعور کی بہت کمی ہے۔
‘جگہ جگہ ہم نے بینرز لگائے ہیں، ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال باجوڑ کے دیگر ڈاکٹرز اور میں خود مقامی میڈیا اورایف ایم چینلز کے زریعے عوام کو مسلسل اس وائرس کے خطرات اور ممکنہ احتیاطی تدابیر سے اگاہ کر رہے ہیں، میری اب بھی یہی درخواست ہے کہ ہم اب بھی اس کو کنٹرول کر سکتے ہیں، باقی یہ وبا ہیں پھیلتی ہیں، بچاو یہی ہے کہ ہاتھ اور گلے لگانے سے گریز کریں، 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں، جو عمر رسیدہ یا دوسری بیماریوں کے شکار لوگ ہیں وہ باہر نکلنے سے مکمل گریز کریں، اور ماسکس اور سنیٹائزر کا استعمال کریں’ ڈی ایچ او نے وضاحت کی۔
انہوں نے کہا کہ جن افراد میں علامات ہوتے ہیں وہ ان کو اگاہ کریں، یا خود کو کورناٹائن کریں، باہر جانے کے بعد صفائی کا خیال رکھے۔
واضح رہے کہ قبائلی اضلاع میں کورونا وائرس سے ہونے والے جانی نقصان میں ضلع باجوڑ سب سے اگے ہیں، باجوڑ میں کل 219 کیسیز پازیٹیو ائے ہیں جبکہ 25 اموات واقع ہوئی ہیں، قبائلی اضلاع میں اب تک کورونا وائرس سے ہونے والے 25 فوتگیوں میں 18 ضلع باجوڑ میں ہوئی ہیں۔
خیبر اور کرم میں 3، 3 مہمند میں صرف ایک اور باقی تین اضلاع میں ابھی تک کوئی فوتگی رپورٹ نہیں ہوئی۔
قبائلی مشر مولانا خان زیب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسلام کا عقیدہ تقدیر کا ہے کہ شر اور خیر پر یقین رکھنا کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہیں کچھ لوگ تقدیر سے انکار کرتے ہیں، اور کچھ لوگ انسان کو کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، یعنی وہی ہوتا ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے لیکن اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ انسان سو فیصد مختار بھی نہیں ہیں اور بے بس بھی نہیں۔
انہوں نے اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ کیلئے جاتے تو احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے، آپ خود کو کور کرتے، ہیلمٹ پہنتے تھے، حالانک اپ تقدیر پر یقین رکھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ تقدید ماننا ضروری ہے کہ جب اللہ نہ چاہے اور تقدیر میں نہ ہو تو اپ کو بیماری نہیں لگ سکتی لیکن دوسری طرف اللہ نے انسان کو تدبیر کا بتایا ہے تو اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
قبائلی مشر نے کہا کہ دیگر قبائلی اضلاع کے مقابلے میں ضلع باجوڑ میں کورونا وائرس کے زیادہ کیسیز سامنے آنے کی کئی وجوہات ہیں، باجوڑ کی آبادی دیگر قبائلی اضلاع کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 2017 مردم شماری کےمطابق 10 لاکھ 94 ہزار ہیں، جبکہ رقبہ سب سے کم ہیں، یہاں تحصیل ماموند اور خار جیسے بڑے اور گنجان آباد علاقے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ مذہب کے زیادہ قریب ہیں، عام لوگوں کا خیال ہے کہ موت اور زندگی اللہ کی ہاتھ میں ہیں، کورونا وائرس انسان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، ماضی کے واقعات کو مدنظر رکھ کر وہ اس کو صرف ایک سازش سمجھتے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ آگاہی کی کمی ہے یہاں کے لوگوں کو ذرائع ابلاغ کی وہ سہولیات میسر نہیں جن کے ذریعے وہ خود کو دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رکھ سکے۔
جب ہم نے اس حوالے سے سماجی کارکن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر ریحان زیب سے بات کی جو آگاہی مہم میں مصروف تھے تو انہوں نے کہا کہ یہاں کے 60 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کے لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لاک ڈاون سے پہلے حکومت ان کی خوراک کا بندوبست کرتی تو یہ لوگ ایس او پیز پر عمل کرتے، یہ لوگ مساجد جانا ہر حالت میں فرض سمجھتے ہیں، ہمارے لاکھ کوششوں کے باوجود نہ صرف مساجد جاتے ہیں بلکہ وہاں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ریحان زیب نے بتایا کہ یہاں ایک وقت کی نماز میں سینکڑوں کی تعداد ہوتی ہیں، نماز کے بعد نہ صرف یہ لوگ مصافحہ کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے گلے لگتے ہیں اور خیریت دریافت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے لاک ڈاون سے متاثرہ علاقوں میں فوڈ پیکیجز تقسیم کیے ان سے محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کی اپیل کی، ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ کورونا وائرس اگر اللہ کا عذاب بھی ہے تو اللہ نے ہمیں خود کو بچانے کا ایک راستہ بتایا ہے ہم اس راستے پر چلیں گے، احتیاطی تدابیر پر عمل کریں گے تو نہ صرف ہم محفوظ رہیں گے بلکہ ہمارے عزیر و اقارب اور ہمارے محلے کے لوگ بھی محفوظ رہیں گے۔
اسسٹنٹ کمشنر خار فضل الرحیم صاحب جو کورونا وائرس کے روک تھام کے حوالے سے سرگرم عمل ملک کے پانچ بہترین انتظامی افسروں میں سے ایک ہیں کا کہنا ہے کہ یہاں کے لوگوں کا مزاج مختلف ہے یہاں کام کرنے کیلئے بھی مختلف حکمت عملی اپنانی پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ باجوڑ کی آبادی بہت زیادہ ہے کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے یہاں ہم نے ہر ممکن اقدام اٹھایا ہے یہاں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے ہماری کوشش ہوتی ہےکہ لوگوں کو لاک ڈاون کے دوران تمام سہولیات مہیا کریں، ہم روزانہ کی بنیاد پر کورنٹائن سنٹرز کا دورہ کرتے ہیں کہ ان کو سہولیات ملتے ہیں یا نہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر نے بتایا کہ لوگ کورونا وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اسلئے ہم نے ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے سخت فیصلے کیے، ہم نے بہت سے دوکانوں کو سیل کیا، پٹرول پمپس سمیت عوامی مقامات پر ماسکس پہننا لازمی قرار دیا ہے جو ایس او پیز پر عمل نہیں کرتے ہم ان پر جرمانے عائد کرتے ہیں۔
فضل الرحیم نے بتایا کہ ہم نے علماء کرم کو بٹھایا ان کو ہدایت کی ہیں کہ وہ مساجد میں نہ صرف خود احتیاطی تدابیر پر عمل کریں بلکہ محلہ والوں کو بھی ترغیب دیں۔
انہون نے کہا کہ کورونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر صوبائی و وفاقی حکومت کی جانب سے واضع کردہ حکمت عملی پر بھرپور عمل کیا جائے گا۔