‘ہسپتال کو جب مشتبہ مریض لایا جاتا ہے تو خوف کی فضا پھیل جاتی ہے’
ناہید جہانگیر
‘ہسپتال میں کورونا کا کوئی مشتبہ مریض لایا جاتا ہے تو دل پر ایک عجیب سا خوف طاری ہوجاتا ہے لیکن چونکہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہر صورت میں مریض کا علاج کریں گے تو یہی احساس ذمہ داری ہے جس کی وجہ سے خود کی زندگی خطرے میں ڈآل کر علاج کرتے ہیں’
یہ ڈاکٹر شہریار کے خیالات ہیں جو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں بطور ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں اور یہ وارڈ کورونا کے مشتبہ مریضوں کے لئے مختص کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شہریار کہتے ہیں کہ ہسپتال میں حفاظتی ٹوپی سے لیکر جوتوں تک تمام سامان موجود ہے لیکن پھر بھی معمولی سی بے احتیاطی کورونا جیسے مہلک وائرس کے مریض کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وارڈ میں ہر وقت انتہائی گھٹن جیسا ماحول ہوتا ہے اور عملے کے تمام ارکان بہت فکر مند نظر آتے ہیں اور جب کوئی نیا مشکوک کیس آجاتا ہے تو یہ حالات مزید سخت ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹر شہریار کے مطابق ایسے ماحول میں پھر سٹاف کا کام کرنا بھی مشکل ہوتا ہے تو کوشش کی جاتی ہے کہ بہت ہی کم سٹاف کی ڈیوٹی لگائی جائے، تقریبا 8 سے 10 تک عملے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹا جاسکے، لیکن ان سٹاف میں سے بھی کوشش کی جاتی ہے کہ بہت ہی کم عملہ مریض سے کنٹیکٹ میں رہیں۔
ڈاکٹر شہریار نے بتایا کہ جو عملہ مختص ہے اور کورونا وائرس متاثرین کے ساتھ علاج ومعالجے کے حوالہ سے ان ٹچ ہوتا ہے انکو پھر کچھ دنوں کے لئے کورنٹائن کیا جاتا ہے تاکہ خوانخواستہ انہیں یہ وائرس لگا ہو تو علامات ظاہر ہو تو علاج شروع کیا جاسکے اور دوسرے لوگوں کو ان سے محفوظ رکھا جاسکے۔
ڈاکٹر شہریار نے ٹی این این کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہا کہ کورونا وائرس ہوا میں نہیں پھیلتا یا اس طرح ہونے کے بہت ہی کم چانسز ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی کورونا وائرس کا مشتبہ مریض ہے جس میں ابھی تک کرونا وائرس کی تشخیص نہیں بھی ہوئی توبھی اس سے ایک میٹر فاصلہ ضروری ہے۔ مزید یہ کہ منہ پر ماسک لازمی لگایا جائے جو اس وائرس سے بچاو کے لئے تدابیر میں سے ایک اہم حصہ ہے۔
ڈاکٹر شہریارنے بتایا کہ اب تک جو حقائق سامنے آئے ہیں ان کے مطابق انسان سے انسان میں یہ وائرس منتقل ہورہا ہے نہ کہ ہوا میں وائرس کی موجودگی اس مرض کی سبب بنی۔
جو مریض صحت یاب ہوچکے ہیں ان کے بارے میں ڈاکٹر کا کہنا ہے انکو بھی 14 یا 15 دن کے لئے گھر میں ہی قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔ اگر ان دنوں کورونا وائرس کے علامات مکمل ظاہر نہیں ہوتے تو تب اس کا پھر سے ٹیسٹ لیا جاتا ہے اگر وہ ٹیسٹ میں کلئر آتا ہے تو ان کو فارغ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی احتیاطی تدابیر کو مکمل اپنائے گا۔
کیونکہ کورونا کا یہ نیا وائرس ہے اور دنیا اب اس پر تحقیق کر رہی ہے تو زیادہ اس پر بات نہیں کی جاسکتی لیکن یہ ہے کہ اگر 100 لوگوں میں کورونا وائرس موجود ہیں تو اس میں 95 فیصد لوگ بغیر کسی علامات کے خود بخود ٹھیک ہوجاتے ہیں لیکن وہی لوگ دوسروں کے لیے خطرہ ہوسکتا کہ ان سے یہ مرض دوسروں تک پھیلیں۔ اسی طرح باقی 5 فیصد میں سے دو یا تین میں اس وائرس کی وجہ سے علامات ظاہر ہوجاتی ہیں اور انہیں ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، ڈاکٹر نے کہا۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اس وقت ایک ہی کورونا وائرس کا ایک ہی متاثرہ فرد موجود ہے۔ ضلع کے دوسرے ہسپتالوں میں مشتبہ کیسز رکھے جاتے ہیں اور جیسے ہی ان میں اس وائرس کی تشخیص ہوتی ہے تو انہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے۔ لیڈی ریڈنگ میں کورونا وائرس کے تصدیق شدہ مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک نیا مرض یا وبا ہے تو مریض کی کنڈیشن کو مدنظر رکھ کر وینٹی لیٹر کے علاوہ کچھ متفقہ طور پر تجویز شدہ ادویات دی جاتی ہیں، لیکن اسکو فلحال ڈسکلوز نہیں کیا جاسکتا ایسا نا ہو لوگ خود ہی ایک دوسرے کو تجویز کرنا شروع کریں جب وائرس ایجاد ہوگا تو تب سب کے سامنے ہوگا۔