230 ناپید، 2498 مادری زبانوں کی بقاء کو خطرات لاحق
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا جبکہ وفاقی حکومت نے امسال بجٹ میں وزیراعظم کے ننھیال کی زبان برکی کیلئے دو کروڑ روپے مختص کر دیئے۔
اسسٹنٹ کمشنر ٹانک حمیدا للہ آفریدی نے عالمی یوم مادری زبان کے حوالے سے پریس کلب ٹانک میں منعقدہ تقریب اور بعد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں بولی جانے والی اورمڑی (برکی ) زبان کی ترویج کے لئے سالانہ اے ڈی پی 2019-20 میں دو کروڑ روپے مختص کر دیئے ہیں، کانی گرم و گرد ونواع کے علاقوں میں موجود سرکاری سکولوں میں پریپ سے لیکر پانچویں کلاس تک پشاور یونیورسٹی پشتو اکیڈمی کے زیر اہتمام کتابیں چھاپ کر نئے تعلیمی سال کے آغاز سے بچوں کو پڑھائے جائیں گے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی والدہ کا تعلق بھی جنوبی وزیرستان کے اسی علاقے کانی گرم سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پشاور یونیورسٹی پشتو اکیڈمی کے زیر اہتمام اورمڑی (برکی) زبان کو پریپ سے لیکر پانچویں کلاس تک بچوں کو کانی گرم کے گرد ونواع میں تمام سکولوں میں پڑھنے کے لئے کتابیں چھاپی گئی ہیں جو نئے تعلیمی سال کے آغازسے ہی پڑ ھائی جائیں گی۔
تقریب سے شاعر پیر آمان و دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن راہ نجات سے جنوبی وزیرستان سے لوگوں کی نقل مکانی کی قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں بولی جانے والی اورمڑی زبان کے وجود کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے، اورمڑی زبان بولنے والے خاندان ملک کے مختلف شہروں میں تقسیم ہوگئے اور وہاں پر پناہ لے لی، ملک کے دیگر شہروں میں نقل مکانی کی زندگی گزارتے وقت ان کے قریب میں رہنے والے دیگر زبان سرائیکی، پنجابی اور دیگر زبان بولنے والے تھے، دیگر زبانیں بولنے والے بچے کے ساتھ کھیلنے والے اورمڑی زبان کے بچے اپنی زبان بول کر دیگر زبانیں بولنے لگے جس کی وجہ سے اورمڑی کے زبان کے وجود کو شدید نقصان پہنچ چکا۔
انھوں نے کہا کہ اورمڑی زبان کے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کو آگے لے جانے کے لئے بایذید پیر روشان ادبی جرگہ جنوبی وزیرستان نے کوششیں شروع کی ہے تاکہ اس زبان کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس کو آگے لے جا سکیں، بایذید پیرروشان ادبی جرگہ جنوبی وزیرستان کے تمام شعراء کی کوشش ہے کہ اورمڑی زبان کو چارچاند لگانے کے لئے وہ اپنا کردار ادا کرسکیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اس دن کے منانے کا مقصد مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کرنا ہے۔
ماہرین کے مطابق مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
یونیسکو کی جانب سے اس حوالے سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر گلوبلائزیشن پراسس کے باعث بیشتر زبانوں کو لاحق خطرات میں یا تو اضافہ ہو رہا ہے یا وہ ناپید ہوچکی ہیں، دنیا میں بولی جانے والی 36 فیصد مادری زبانوں کے خاتمے کا خطرہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پنجابی دنیا میں بولی جانے والی 12ویں اور اردو 20ویں بڑی زبان ہے، دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں چینی، ہسپانوی، انگریزی، عربی، ہندی اور بنگالی ہیں، انگریزی 112 ممالک میں بولی جاتی ہے۔
یونیسکو کے مطابق 1950 سے لیکر اب تک 230 مادری زبانیں ناپید ہوچکی ہیں جن کو بولنے والا اب کوئی نہیں ہے۔ اٹلس آف ورلڈ لینگویج ان ڈینجر کے مطابق دنیا کی 36 فیصد (2498) زبانوں کو اپنی بقا کے لئے مختلف النوع خطرات لاحق ہیں، ایسے خطرات سے دوچار زبانوں میں سے 24 فیصد (607) زبانیں غیر محفوظ (جن کا استعمال بچے صرف گھروں تک کرتے ہیں) ہیں، 25 فیصد (632) ناپیدی کے یقینی خطرے (جنہیں بچے گھروں میں بھی مادری زبانوں کے طور پر نہیں سیکھتے) سے دوچار ہیں، اس کے علاوہ 20 فیصد (562) زبانوں کو خاتمہ کا شدید خطرہ (دادا پڑدادا کی زبان جو ماں باپ جانتے ہیں مگر بچے نہیں بولتے) لاحق ہے، 21.5 فیصد (538) زبانیں تشویش ناک حد تک خطرات (دادا پڑدادا میں بھی باقاعدگی سے نہ بولی جانے و الی زبان) کا شکار ہیں جبکہ 230 تقریباً (10 فیصد) زبانیں متروک ہوچکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جانے والی 27 چھوٹی مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جن میں سے 7 زبانیں غیر محفوظ گردانی جاتی ہیں جن کو بولنے والے 87 ہزار سے 5لاکھ تک ہیں، اس کے علاوہ 14 زبانوں کو خاتمے کا یقینی خطرہ لاحق ہے جن کو بولنے والوں کی تعداد کم سے کم 500 اور زیادہ سے زیادہ 67 ہزار ہے جبکہ 6 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے 200 سے 5500 کے درمیان ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زبانیں ختم ہونے کے شدید خطرے کا شکار ہیں، مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196 زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیں، امریکا کی 191، برازیل کو 190، انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے۔
زبانوں پر تحقیق کرنے والے امریکی ادارے Enthologue کے مطابق ملکوں کے حوالے سے انگریزی سب سے زیادہ 112 ممالک میں بولی جاتی ہے اس کے بعد 60 ممالک میں فرنچ، 57 میں عربی، 44 میں ہسپانوی اور جرمن بھی 44 ممالک میں بولی جاتی ہے جبکہ اردو 23، ہندی 20 اور پنجابی 8 ممالک میں بولی جاتی ہے۔
سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے مطابق پاکستان میں 48 فیصد آبادی پنجابی، 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، 8 فیصد پشتو، 8 فیصد ہی اردو، 3 فیصد بلوچی، 2 فیصد ہندکو ایک فیصد براہاوی جبکہ انگریزی اور دیگر چھوٹی زبانیں 8 فیصد بولی جاتی ہیں۔
یونیسکو کے مطابق دنیا میں بولی جانے و الی زبانوں کی تعداد 6912 ہے جن میں 33 فیصد زبانیں ایشیاء اور 30 فیصد افریقا میں بولی جاتی ہیں، دنیا میں دوسری زبان کے طور پر بولی جانے والی سب سے بڑی زبان انگریزی ہے، کسی ایک ملک میں سب سے زیادہ 820 زبانیں پاپانیوگنی میں بولی جاتی ہیں، دنیا میں سب سے پہلی تحریری زبان 3200 قبل مسیح کی مصری زبان ہے جبکہ 3500 سالہ قدیم چینی اور یونانی تحریریں آج بھی زندہ ہیں۔