فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

‘مجھے اپنی ہراسگی پر اب بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے’

 

ممانڑہ آفریدی

معاشرے کا ذہنی جھکاو اس طرف ہے کہ اکثر اوقات ہراسانی کے واقعات کے بعد ملزمان کی بجائے ہراسانی کے شکار افراد کو زندگی میں زیادہ تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ 23 سالہ ادیبہ جو ایک ادارے کے ساتھ کام کرچکی ہے، انہوں نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ ان کا باس ان کو زیادہ توجہ اور وقت دیتا تھا اور غیرضروری ملاقاتوں کا اہتمام کرتا تھا جو یقینا دفتری امور کے حوالے سے نہیں ہوا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ باس باقاعدگی سے ان سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں مجبوری میں اس نوکری کو جاری رکھنا پڑا کیونکہ وہ گھر کی واحد کفیل تھی، ان کے بھائی بہت چھوٹے تھے اور والد مفلوج تھے۔

انہوں نے کہا “تنظیم کا سربراہ میرے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتا تھا لیکن ایک دن وہ بہت غصے میں تھا۔ اس نے مجھے بہت سارا کام حوالے کیا اور کام ختم ہونے سے پہلے دفتر سے باہر نہ جانے کا حکم دیا۔ جب تقریبا سب ہی دفتر چھوڑ گئے تو اس نے مجھ سے اپنا کام لانے کو کہا جب میں اس کے دفتر میں داخل ہوئی تو اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور جنسی تعلق کا مطالبہ کیا۔ جب میں نے اس کے دفتر سے بھاگنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے پکڑنے کی کوشش کی جس دوران مجھے گردن پر کچھ چوٹیں آئی، جب میں گھرگئی تو میری شادی شدہ بڑی بہن نے میری گردن پر نشانات دیکھ لیے اور میں نے ان کو ساری کہانی سنادی۔ مجھے اب بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ مجھے ہراساں کیا گیا۔

خیبرپختونخوا میں جنسی ہراسانی کے 56 کیسز رپورٹ

جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے بہت سے متاثرین نے خیبرپختونخوا میں عورتوں کو کام کی جگہوں پرہراساں کیے جانے کے خلاف (ترمیمی) ایکٹ 2018 کے تحت شکایات درج کیں۔ ایک سماجی کارکن اور خواتین کے حقوق کی محافظ رخشندہ ناز کے پی میں صوبائی محتسب دفتر کی سربراہی کررہی ہیں۔ کوئٹہ میں پیدا ہونے والی رخشندہ ناز گذشتہ 25 سالوں سے خواتین کے حقوق کی تحفظ کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا” 2 جنوری 2019 کو خیبرپختونخوا حکومت نے مجھے کابینہ کے اجلاس میں منتخب کیا اور 22 جنوری 2019 کو مجھے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے خیبرپختونخوا میں صوبائی محتسب مقرر کیا” انہوں نے کہا کہ ابھی تک ان کے پاس جنسی ہراسانی کے 56 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

قبائلی اضلاع سے ابھی تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی

رخشندہ ناز نے کہا کہ انہوں نے جب سے عہدہ سنبھالا ہے تب سے اب تک ضم شدہ قبائلی اضلاع کی کسی بھی خاتون نے ہراساں کرنے کا مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔ جنسی ہراسگی کا نشانہ بننے والی عبیرا کا کہنا ہے کہ وہ ہراساں کرنے کا مقدمہ درج نہیں کرنا چاہتیں۔ انہوں نے کہا ، "جتنا زیادہ لوگ اس کے بارے میں جانیں گے مجھے اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔” انہوں نے کہا کہ صرف وہی خود ہونگی جو ایک ہراساں بھی ہوئی اور تکلیف بھی سہے گی۔ عبیرا کی طرح باقی لڑکیاں نہ صرف کام کرنے کی جگہوں پرہراساں ہوتی ہیں بلکہ گھر کے اندر بھی ہوتی ہیں۔ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ عائشہ نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ قریبا ایک سال پہلے اس کو اپنے بڑے کزن نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔  انہوں نے کہا” میں ایک سرکاری کالج میں پڑھتی ہوں، لیکن مجھے نہیں پتہ کہ اس طرح کے واقعات کے بعد کہاں پرکیس فائل کرنا ہوتا ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر میں نے اس واقعے کے خلاف کیس فائل کیا تو میرا معاشرہ میرا ساتھ نہیں دے گا، اس کے بعد توہین آمیز انداز میں میری نشاندہی کی جائے گی اور اس پر بات کی جائے گی۔

سائبر کرائم عروج پر

ہراساں کرنا ہمیشہ جسمانی نہیں ہوتا کیونکہ سائبر کرائم بھی اس نسل کو متاثر کررہا ہے۔ بیس سالہ شبانہ نے کہا کہ وہ فیس بک استعمال کرتی ہے اور اپنی تصاویر اپنے اکاؤنٹ پر پوسٹ کرتی ہے۔ اس نے کہا کہ ایک شخص نے اس کی تصاویر کو غیر مناسب طریقے سے ایڈٹ کیا اور اسے بلیک میل کرنے کے لئے اس کے والد کو وہ تصاویر بھیجی۔ اس نے بتایا کہ بلیک میلر نے پانچ لاکھ روپے مانگے اور اس کے والد نے قرض لے کر رقم کا بندوبست کیا۔ شبانہ نے کہا“میرے چچا نے میرے والد کو سائبر کرائم ونگ کے ساتھ معاملے کی رپورٹ کرنے کی تجویز دی۔ میرے والد نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ اگر ملزم نے وہ تصاویر شیئر کیں تو اس کے بعد اس کے لئے پر امن رہنا مشکل ہوگا۔”جبکہ رخشندا نے کہا  "ہمارے کیسز میں ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور ہم ان کا ساتھ دیتے ہیں”۔

قبائلی اضلاع میں جنسی ہراسانی سے متعلق اعدادو شمار موجود نہیں

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر نورین نصیر نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں کسی کو بھی جنسی ہراسانی کے معاملات سے متعلق اعداد و شمار نہیں مل سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ”خواتین کی حفاظت کے لئے ایک بھی قانون نہیں تھا، خواتین مقدمات درج کرنے سے بے خبر ہیں مزید یہ کہ غیرت کے نام پر قتل کے خوف سے وہ بولنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ خیبرپختونخوا میں بھی خواتین بدنامی کے خوف سے مقدمات درج نہیں کرنا چاہتی۔

” ڈاکٹر نورین نے کہا کہ کے پی کے قوانین کو قبائلی اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے اور اب خواتین عدالتوں میں جاکر مقدمات دائر کرسکتی ہیں۔عبیرہ کا کہنا ہے کہ ہراساں کرنا عام ہے لیکن خواتین جنسی ہراسانی کے مقدمات درج کرکےکوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی۔ انہوں نے کہا ، "مجھے اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہراسانی کے شکار افراد درد میں مبتلا رہتے ہیں جبکہ ہراساں کرنے والے والوں کو کوئی سزا نہیں ملتی”

نوٹ: اس تحریر میں بعض افراد کی درخواست پر ان کی شناخت کو چھپایا گیا ہے۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button