خیبر پختونخوا

‘ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک قابل قبول حقیقت بن گئی ہے’

 

‘معاشرے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی آج کل ایک قابل قبول حقیقت بن گیا ہے اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملات روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہورہے ہیں’

ان خیالات کا اظہار چائلڈ رائٹس مومنٹ کی کوآرڈینیٹر خورشید بانو نے پشاور میں ایک تقریب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سول سوسائٹی ایسے مسائل کو اجاگر کرتی رہتی ہے لیکن ریاست حالات کی سنگینی اور رد عمل ظاہر کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سی آر ایم کوآرڈینیٹر خیبر پختونخوا نے بچوں سے زیادتی کے واقعات کی شدید مذمت کی اور خیبرپختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کے تحت بچوں کے زیادتی سے بچاؤ اور ردعمل کے مضبوط و مربوط چائلڈ پروٹیکشن سسٹم کا مطالبہ کیا۔

اس تقریب کے موقع پر بلو وینز تنظیم کے محمد ایوب نے کہا چائلڈ پروٹیکشن سسٹم ایسے اجزاء کے مجموعے پر مشتمل ہے جو اگر مناسب طور پر مربوط ہوں تو ہر بچے کے ارد گرد حفاظتی ماحول کو مضبوط بنانے کے لئے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ایوب نے مزید کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے پی چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کو یقینی بنائے، تمام 35 اضلاع میں چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اور چائلڈ پروٹیکشن کورٹس قائم کرنے کے لئے درکار فنڈز کی فراہمی یقینی بنائے۔  انہوں نے کہا چائلڈ پروٹیکشن یونٹس اور چائلڈ پروٹیکشن کورٹس کا قیام وقت کی ضرورت کے ساتھ ساتھ قانونی تقاضا بھی ہے۔

گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کے عمران ٹکر نے کہا کہ کے پی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 ایک جامع قانون ہے جبکہ مذکورہ قانون کے تحت ایک کمیشن 2011 بھی قائم کیا گیا ہے لیکن قانون کے مطابق کمیشن کے باقاعدہ کوارٹرلی (چار ماہی) اجلاس نہیں ہو رہے تکہ بچوں کے ساتھ زیادتی کا جائزہ لیکر لائحہ عمل یقینی بنائیں۔ عمران ٹکر نے کہا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے کو روکنے کے لیے کے پی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر کمیشن کی سربراہی میں مربوط کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔

عمران ٹکر کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک قانون، اداروں اور سزاؤں کا تعلق ہے، تکنیکی، وسائل اور رسائی کے اعتبار سے اگرچہ فقدان اور سست روی ضرور ہے،  لیکن پھر بھی ملزمان کو گرفتار کیا جاتا ہے، جلد یا بدیر مجرم کو کسی نہ کسی طرح کم یا زیادہ سزا بھی مل جاتی ہے لیکن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

عمران ٹکر نے کہا کہ والدین اور کمیونٹی کو زیادہ سے زیادہ آگاہ کیا جائے کہ جنسی زیادتی ایک حقیقت ہے اور ان کا بچہ کسی بھی وقت، کسی بھی عمر میں کہیں بھی محفوظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کی روک تھام کیلئے سول سوسائٹی، میڈیا اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت اور سول سوسائٹی ہاتھ جوڑ کر اہم سٹیک ہولڈرز یعنی بچوں، والدین اور اساتذہ میں وسیع پیمانے پر شعور پیدا کریں۔

بچوں کو زیادتی سے بچاو کے طریقوں کے بارے میں مواد مذہب اور ثقافت کی روشنی میں نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ نصاب کے علاوہ بھی سکولوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگاہی پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا جاسکتا ہے جسکے لئے کے پی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر کمیشن کو صوبائی محکمہ تعلیم کے ساتھ رابطہ کاری اور سہولت کاری کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button