کرونا وائرس، چین میں پھنسے پختون کس حال میں ہیں؟
” جب ہاسٹل میں کھانے پینے کی اشیا ختم ہوجاتی ہیں تو ہم دو یا تین دوست ماسک لگاکر مارکیٹ چلے جاتے ہیں لیکن شہر بند ہونے کی وجہ سے ہمیں اشیا خوردونوش کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں
سلمان یوسفزے
"ہم پچھلے 12 دنوں سے یونیورسٹی کے ہاسٹل میں پڑے ہیں اور کرونا وائرس کی وجہ سے ہمیں سختی سے ہدایات کی گئیں ہیں کہ اپنے کمروں سے ہرگز باہر نہ نکلیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ باہر نکلیں اور اپنے ملک پاکستان واپس چلے جائیں”
یہ الفاظ چین کے جینگزہو ہوبی صوبے کے یانگسی یونیورسٹی میں خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر بامپوخہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایم بی بی ایس کے طالب علم عادل خان کے ہیں جو کہ اس وقت دوسرے ہزاروں پاکستانیوں کی طرح چین میں پھنسا ہوا ہے کیونکہ پاکستان حکومت نے وائرس کی منتقلی کے خدشے کے پیش نظر چین سے اپنے شہریوں کو فی الحال واپس ملک نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
ٹی این این سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے عادل خان نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی میں صرف خیبرپختونخوا کے 60 زائد طلبا زیر تعلیم ہیں جبکہ ملک کے دوسرے حصوں کے بھی سینکڑوں طلباء زیرتعلیم ہیں۔
عادل خان کے مطابق چین میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد ووہان سے محلقہ ان کے شہر ہوبی میں بھی آمدورفت مکمل طور پر بند ہیں جس سے نظام زندگی متاثر ہوگئی ہے اور ہاسٹل میں رہائش پذیر طلبا کو کھانے پینے کی اشیا کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔
” جب ہاسٹل میں کھانے پینے کی اشیا ختم ہوجاتی ہیں تو ہم دو یا تین دوست ماسک لگاکر مارکیٹ چلے جاتے ہیں لیکن شہر بند ہونے کی وجہ سے ہمیں اشیا خوردونوش کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہیں۔ ہم اپنا کھانا بناتے تو خود ہے لیکن دکانیں بند ہونے کی وجہ سے تازہ سبزی اور دیگر سامان نہیں ملتا”
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی جانب سے انہیں چھٹیاں دی گئیں ہیں اور وہ سب چاہتے ہیں کہ اپنے ملک چلے جائیں لیکن ایسا کوئی انتظام ہوتا نظر نہیں آرہا، کیونکہ نہ تو انہیں پاکستان کے سفارتخانے جانے کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ ہی انہیں اپنی فریاد سفارتخانے پہنچانے کا کوئی طریقہ نظر آ رہا ہے۔
عادل خان کے مطابق ان کے زیادہ تر طالب علم دوست ہاسٹل کے گھٹن زدہ ماحول میں رہنے اور دلوں میں ہر وقت خوف رہنے کہ وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکے ہیں اور ان کے والدین بھی اپنے بچوں کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں جو ان کی جلد از جلد واپسی کے منتظر ہیں۔
پاکستان سے چین جانے والے کیا کہتے ہیں ؟
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے آصف اقبال پچھلے تین سالوں سے چین میں ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے ساتھ بطور اکاونٹنٹ کام کررہے ہیں اور اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کہ کرونا وائرس پھیلنے سے کچھ ہی عرصہ پہلے پاکستان آئے ہے۔ ٹی این این سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ کمپنی نے انہیں آٹھ فروری تک چھٹیاں دی ہیں لیکن اب کرونا وائرس کی وبائی صورتحال کی وجہ سے ان کی چھٹیاں 21 فروری تک بڑھا دی گئی ہیں۔
آصف نے خدشہ ظاہر کہا کہ اگر کرونا وائرس پر قابو نہیں پایا گیا تو وہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد بھی چین نہیں جائے گا جس کی وجہ سے وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔آصف اقبال کے مطابق وہ خاندان کا واحد فرد ہے جو اپنے گھر کی دیکھ بھال کرتا ہے لیکن اپنے زندگی سے عزیز کچھ بھی نہیں ہے۔
پاکستان کیا کہتا ہے ؟
چین میں پاکستانی طلبہ کے وطن واپسی کے اقدامات کے مطالبے پر حکومت نے شہریوں کو تاحال چین میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ چین میں صحت سے متعلق پالیسیاں بہترین ہیں اور یہ سب کے مفاد میں ہے کہ ہم پاکستانی شہریوں کو وہیں پر رکھیں، کوئی بھی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جو بیماری پھیلنے کا سبب بنے۔
اپوزیشن کا چین میں پھنسے پاکستانیوں کی وطن واپسی کا مطالبہ
سینٹ میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت چین میں 10 ہزار کے قریب طلبہ سمیت 28 ہزار پاکستانی ہیں۔ انہوں نے چین سے پاکستانیوں کو اپنے ملک نہ لانے کے فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیرصحت نے حکم دیا پاکستانیوں کو چین سے نا آنے دو، یہ اقدام قتل کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ عجیب حکمران ہیں اور عجیب پالیسی ہے، چین سے آنے والوں کو بے شک آپ کسی جگہ ہفتے، 10 دن اکیلا رکھ دیں لیکن اس آفت سے چین میں مقیم پاکستانیوں کو بچایا جائے ۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس حوالے سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئں، چین میں لوگ مررہے ہیں اور ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، اس فیصلے کا کیا جواز ہے کہ ہم نے چین سے اپنے لوگوں کا انخلا نہیں کرانا، ان طلبہ کی مائیں پاکستان میں رو رہی ہیں۔
ہلاکتوں میں اضافہ عالمی ادارہ صحت کی ایمرجنسی
چین میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 213 تک جا پہنچی جب کہ عالمی ادارہ صحت نے بین الاقوامی سطح پر ہنگامی حالت نافذ کردی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چین کے قومی ہیلتھ کمیشن نے کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 9 ہزار 692 تک پہنچنے کی تصدیق کی ہے جب کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کرونا وائرس کے شبک میں زیر نگرانی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارہ صحت) نے غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر عالمی طور پر ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
طورخم بارڈر گیٹ پر کرونا وائرس کی تشخیص کا سلسلہ شروع
پاکستان میں اب تک ملتان میں دو افراد میں کرونا وائرس کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے متعلقہ اداروں کو حفاظتی انتظامات کرنے کی تلقین کی ہے۔
اس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت نے بھی تمام اضلاع کے ھیلتھ افیسرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی ہیں کہ حالات پر کڑی نظر رکھے اور کوئی بھی مشتبہ کیس نظر آنے کی صورت میں مریض کو فوراّ اسلام آباد میں مختص ہسپتال منتقل کیا جائے۔
صوبائی حکومت کے ہدایات کی روشنی میں مختلف ہسپتالوں میں کرونا وائرس مریضوں کے لئے الگ وارڈ مختص کئے گئے ہیں جبکہ قبائلی ضلع خیبر میں طورخم بارڈر گیٹ پر افغانستان آنے جانے والے لوگوں میں کرونا وائرس کی تشخیص / تصدیق کے لئے ایک 7 رکنی میڈیکل ٹیم نے کام شروع کیا ہے۔ جس میں ٹیکنیکل بندے، ڈسپنسر، ٹیکنیشن وغیرہ شامل ہیں۔ اس ٹیم کے پاس 7 تھرمل گنز ہیں۔ اگر کسی مسافر کو بخار لاحق ہو، تو اس کی سفری معلومات کی جاتی ہے۔ یہ ٹیم ہر ممکن کوشش کرے کی، کہ کروناوائرس پاکستان میں داخل نہ ہو جاۓ۔