خیبر پختونخواسٹیزن جرنلزمعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویو

قربانی کے جانوروں کے بڑھتے ہوئے نرخ، خریدار اور بیوپاری دونوں پریشان

آفتاب مہمند

عید الاضحی کے سلسلے میں پشاور میں لگنے والی مال مویشی منڈیاں زیادہ قیمتوں کے باعث تاحال خریداروں کی توجہ حاصل نہ کر سکی۔ ایک طرف زیادہ قیمتوں کے باعث اگر خریدار پریشان ہیں تو دوسری طرف خود بیوپاری بھی مہنگائی کے شکار ہیں۔

اسی حوالے سے محمد آیاز، شاہد علی، سرفراز خان و دیگر کئی شہریوں نے ٹی این این کو بتایا کہ انہیں پچھلے سال کی بنسبت رواں سال بڑے جانور جیسے گائے، بھینس وغیرہ کی قیمتوں میں کم از کم 20 فیصد تک کا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پچھلے سال اگر ایک جانور کی قیمت 1 لاکھ اور 30 ہزار روپے تھی تو رواں سال اسکی قیمت 1 لاکھ اور 80 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح چھوٹے جانوروں جیسے دنبے، بکرے و بکریوں کی قیمتوں میں بھی 20 فیصد یا اس سے زائد تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ پشاور ہو یا دیگر علاقے شہری دن ہو یا رات کے اوقات بس صرف منڈیوں کے چکر ہی لگاتے ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں پریشانی اس بات کی ہے کہ قربانی بھی تو کرنی ہے لہذا کریں کیا؟ یہی تو وجہ ہے کہ فی الحال کم سے کم خریدار منڈیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ پہلے اگر ایک شخص اکیلا قربانی کر سکتا تھا لیکن اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر اب تین، چار بندے اکھٹے ہو کر ایک جانور لے کر شائد مشترکہ قربانی کرنے کے قابل ہو۔ بڑے مال مویشی منڈیوں جیسے رنگ روڈ والا، کالا منڈی کا چکر لگانے کے بعد وہ ضرور چھوٹے جانوروں کی منڈی کا بھی رخ کرتے ہیں لیکن وہاں بھی قیمتیں ایک لاکھ یا اس سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔

ایسے میں وہ سمجھتے ہیں کہ پہلے اگر مجموعی آبادی کا 20 فیصد حصہ قربانی سے محروم ہوتا تھا لیکن اب شائد یہ تناسب بڑھ کر 30 یا اس سے زائد فیصد تک پہنچ جائے گا۔ ایسے میں وہ صرف دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہر شہری قربانی کے قابل ہو۔ ساتھ ساتھ وہ پرامید بھی ہے کہ آخری ایک دو روز میں جانوروں کی قیمتوں میں کمی واقع ہو کر لوگ مویشی خرید سکے گے۔

خود مہنگائی کے شکار کئی بیوپاریوں نے ٹی این این کو بتایا کہ رواں سال مہنگائی کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹیشن کے بڑھتے ہوئے کرایے، زیادہ ٹیکسز اور جانوروں کی خوراک کا مہنگا ہونا تھا۔ بڑا مال وہ پنجاب سے لاتے ہیں وہاں انکو مہنگا مل رہا ہے۔ مگر فرق ضرور آیا ہے پہلے اگر ایک بیوپاری 10 جانور لیتا تھا تو اب وہ 50 تک جانور لیکر منڈی لاتے ہیں جیسا کہ انکو یہ فکر ضرور رہتی ہے کہ اگر مال نہیں بیچا گیا تو عید کے بعد قصائیوں پر انکی مرضی کی قیمتوں پر فروخت کرنا پڑے گا۔

بیوپاریوں کا کہنا تھا کہ وہ خود بھی پریشان ہیں جیسا کہ رواں سال منڈیوں میں خرید و فروخت کا سلسلہ بہت کم ہے۔ ایک وجہ تو گرمی بھی ہے شائد آخری ایک، دو روز میں خریداری کا سلسلہ بڑھ جائے گا کیونکہ قربانی کرنے والوں کے پاس ہر صورت میں جانور لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ انکی بھرپور کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے منافع کی مناسب شرح رکھے تاکہ عوام پر زیادہ بوجھ نہ ہو لیکن اگر انکو مال مہنگا ملا ہے تو یقینا عوام کو بھی مہنگا ہی خریدنا پڑے گا۔

پشاور کے رنگ روڈ پر واقع چھوٹے جانور جیسے دنبے، بکریوں کی سب سے بڑی مال مویشی منڈی کے بیوپاریوں نے اس موقع پر ٹی این این کو بتایا کہ اسی منڈی میں پچھلے سال 1 لاکھ سے زائد جانور لائے گئے تھے لیکن رواں سال چھوٹے جانوروں کی کل تعداد 30 ہزار بھی نہیں جسکی بڑی وجہ کہ رواں سال کابل، افغانستان سے یہاں چھوٹے مال کا نہ لانا ہے۔ اسکا جواب تو حکومت دے سکتی ہے۔ لیکن تعداد کم ہونے کے باعث بھی دنبوں و بکرے، بکریوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اگر خریدار پریشان ہیں تو انکو خود بھی سخت پریشانی کا سامنا ہے۔

سال میں تو یہی انکا سیزن ہوتا ہے لیکن مہنگائی کے باعث رواں سال کا سیزن بالکل بھی اطمینان بخش نہیں۔ اخراجات بھی ہو رہے ہیں اور خرید و فروخت کا سلسلہ بھی نہایت متاثر ہو گیا ہے۔ بس انکے پاس یہی راستہ ہے کہ رواں سیزن یعنی عیدالاضحی کے بعد وہ اپنا قصب و کاروبار ہی ختم کر دیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button