عوام کی آوازفیچرز اور انٹرویومتفرق

آن لائن فراڈ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے بچا کیسے جائے؟

محمد بلال یاسر

زید پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے، زید کہتے ہیں کہ گزشتہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب 9 بجے کے قریب انہیں یورپ سے فیس بک میسنجر پر ایک قریبی دوست کا ٹیکسٹ میسج آیا. سلام دعا کے بعد اس نے بتایا کہ اس کے ایک رشتہ دار کو پیسوں کی شدید ضرورت ہے ، آپ انہیں 8 لاکھ روپے خود یا کسی سے لے کر بھیجوا دیں، میں اگلے ماہ آپ کو تیس چالیس لاکھ روپے بھجواؤ گا مگراس وقت یہ یسے کہی پھنسے ہوئے ہیں۔ اور یہ یسے میرے پاکستان  آنے تک استعمال کر لینا۔
میں نے ایک دوست سے ادھار رقم مانگ لی کیونکہ میرے پاس اس وقت اتنی موجود نہ تھی۔ اس دوست کے جانب سے آدھی رقم مل گئی اور باقی کچھ دن بعد دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے یہ رقم لیکر فوری طور میسنجر میں دیئے گئے ایزی پیسہ نمبر پر بھیج دی اور باقی رقم کی تلاش میں نکل پڑا۔ اگلی صبح دیکھا تو اس میسنجر سے وہ چیٹ بھی غائب تھی، اور معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ آئی ڈی تو کئی دن قبل کسی نے ہیک کرکے اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ جیسے جیسے مجھے علم ہوتا گیا میرے پاؤں سے زمین نکلتی گئی۔ کچھ وقت گزرا تو شک حقیقت میں بدل گیا تھا اور میرے پاس آفسوس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔

مدد کی اپیل کے نام پر دھوکہ :

ابرار خان ، گورنمنٹ کالج میں پولیٹکل سائنس کے تیسرے سمسٹر کے طالب علم ہیں انہوں نے بتایا کہ صبح سویرے انہیں ایک کال موصول ہوئی جس میں کال کرنے والے نے انتہائی مظلومیت بھری آواز میں بتایا کہ وہ اپنے کسی قریبی رشتے دار کو ہسپتال میں رقم بھیجنا چاہ رہے تھے مگر یہ رقم غلطی سے آپ کے اکاؤنٹ میں چلی گئی ہے۔

مہربانی کر  کے آپ دوبارہ میرے نمبر پر بھیج دیں، میں نے بستر پر ہی اس میسج کو کھول کر پڑھا اور دیکھا کہ ایک میسج تو آیا ہوا تھا۔ جس کے مطابق میرے اکاؤنٹ میں 8 ہزار روپے موصول ہوئے۔ میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ فیک میسج ہے اور اس کی رقم میری اکاؤنٹ میں منتقل نہیں ہوئی۔ اس معاملے میں دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ کسی اور نمبر سے رقم کی وصولی کا تقریباً ویسا ہی پیغام بھیجا جاتا ہے۔ ان معاملات میں کوئی خدا ترس یا سادہ لوح کوئی نہ کوئی فرد ان کا نشانہ بن ہی جاتا۔

مگر سوال یہ ہے کہ فراڈ کرنے والوں کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بندے کے پاس اتنا بیلنس ہے اور اس کا روک تھام کیوں نہیں ہوتی۔

آن لائن فراڈ واقعات میں مشترکہ خصوصیات:

آن لائن پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے یا پھر ٹیلی فون کالز پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں چند مماثلات ہیں۔ فراڈ کرنے والے ملزمان یا تو لالچ کے ذریعے نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یا پھر طریقہ واردات اگر مختلف ہو تو جلد بازی دکھاتے ہیں۔ اس تیزی کے باعث سادہ لوح افراد کو موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ اس معاملے میں کچھ تحقیق کر سکیں۔ اور تحقیق کیے بغیر ان فراڈیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

آن لائن فراڈ سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

آنلائن فراڈ کاشکار اکثر و بیشتر لوگ لالچ کے وجہ سے بنتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ لالچ میں نہ پڑیں، کسی بھی نامعلوم کال کی صورت میں فوراً متوجہ ہو جائیں اور خفیہ معلومات کسی کو نہ بتائیں۔ اپنے موبائل، اے ٹی ایم کارڈ کے پن اور بنک ایپلیکیشن کے پاسورڈ کی حفاظت کرتے رہیں۔

دو تین مہینے بعد ان کو لازمی تبدیل کر دیں 668 پہ اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اپنے نام پر موجود سمز لازمی دیکھیں، اگر کوئی ایسی سم ہے جو آپ نے نہیں نکلوائی اسے فوراً بند کروا دیں۔

اپنے بنک اکاؤنٹ کا بیلنس کبھی بھی کسی سے شیئر نہ کریں اپنے دوست احباب اور فیملی ممبر سے بھی چھپا کے رکھیں اور وقتاً فوقتاً اپنے بینک بیلنس کو چیک کرتے رہیں۔ اور ہر چند ماہ بعد اکاونٹس کے پاسورڈ تبدیل کرتے رہے۔ آن لائن شاپنگ کرتے وقت کیش آن ڈلیوری کریں، اگر مجبوراً پیسے بھیجنے ہی پڑھیں تو بینک اکاؤنٹ میں ہی بھیجیں، جیز کیش یا ایزی پیسہ نہ کریں۔

اگر خدانخواستہ ایسے کسی فراڈ کا آپ شکار ہوجائیں تو فوری طور ثبوت کے ساتھ ایف آئی اے کو رپورٹ کریں اور سائبر کرائم کے ہیلپ لائن 1991 پر کال کرکے رپورٹ کروائیں ۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button