وہ جو اپنے گھروں سے نکلے مگر کبھی واپس نہ پہنچ سکے
حمیرا علیم
آج جب کہ دہشت گردی سے متاثرہ اور اس کے نتیجے میں مارے جانے والوں کی یاد میں ایک دن منایا جا رہا ہے مجھے دنیا بھر میں مرنے والے ان لوگوں کا خیال آ رہا ہے جو زندگی سے بھرپور تھے اور اپنے گھروں سے روزمرہ کے کاموں کے لیے نکلے مگر دہشت گردی کا شکار ہوئے اور کبھی واپس نہ پہنچ سکے۔
2017 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 اگست کو دہشت گرد حملوں کے متاثرین اور ان کے لواحقین کی یاد منانے کا دن قرار دیا کیونکہ ان حملوں کے شکار افراد اپنے مالی اور جانی نقصان کی وجہ سے تنہائی اور ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اس تکلیف کو بھلانے کے لیے انہیں سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
گذشتہ کچھ دہائیوں سے دنیا معاشی بحران سمیت کئی اور مسائل سے دوچار ہے اور انہی میں سے ایک مسئلہ دہشت گردی بھی ہے۔ صرف پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک ہی اس کا شکار نہیں ہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اکثر دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں سے قابل ذکر امریکہ میں ہونے والا 9/11 کا واقعہ ہے۔
ذرا سوچیے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کی پولیس، ایجنسیز اور فورسز جدید ہتھیاروں اور گیجٹس سے لیس ہیں اور تربیت یافتہ ہیں، کچھ لوگ نہ صرف ہتھیاروں سمیت ائیرپورٹس سے جہاز تک پہنچ جاتے ہیں بلکہ جہازوں کو ہائی جیک کر کے اس ملک کی اہم ترین عمارت پینٹاگون سے ٹکرا بھی دیتے ہیں نتیجتاً سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں ایک دہشت گرد مسجد پہ حملہ کر کے پچاس سے زائد لوگوں کی جان لے لیتا ہے۔برطانیہ میں چرچ، مساجد، اسکولز، مالز اور ریس کے شرکا پہ حملے ہوتے ہیں۔ فرانس میں مشہور مقامات پہ بم دھماکے ہو جاتے ہیں۔ جب ان سب ممالک کی پولیس اور فورسز دہشت گردوں کے آگے بے بس ہیں تو پاکستان کا تو اللہ ہی حافظ ہے، نہ تو ہماری پولیس کے پاس جدید ہتھیار ہوتے ہیں نہ ہی تربیت اور سونے پہ سہاگہ ان کی کارکردگی بھی اس لائق نہیں ہوتی کہ وہ ملک و قوم کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اور دہشت گرد را، موساد، سی آئی اے اور نجانے کون کون سی مشہور زمانہ ایجنسیز کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ جو جب چاہیں اور جہاں چاہیں نہ صرف حملہ آور ہو جاتے ہیں بلکہ اپنا مشن پورا کر کے بحفاظت نکل بھی جاتے ہیں۔
ہر سال محرم کے جلوسوں پہ، امام بارگاہوں، مساجد، اسکول کالجز، بازاروں یا پبلک پلیسز حتی کہ پولیس، آرمی کے کینٹ، ائیر فورس کے بیسز اور آئی ایس آئی کے دفاتر اور گاڑیوں پہ بیسیوں حملے ہوتے ہیں جن میں نہ صرف معصوم انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ان سے وابستہ کئی خاندان بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔
کوئٹہ میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے میں ایسے ہی چند دہشت گرد حملوں کو دیکھ چکی ہوں جو کہ عیدگاہ، امام بارگاہ ،چرچ، کورٹ، بازاروں اور ہاسپٹلز کے باہر موجود پارکنگ میں ہوئے۔ جن کا وقت پورا ہو چکا تھا اور قضا آئی تھی وہ تو چلے گئے مگر پیچھے رہ جانے والوں کو زندہ درگور کر گئے۔ وہ پل پل ان کی یاد میں مرتے ہیں۔ کسی خاندان کے اکٹھے چھ افراد مارے گئے تو کسی کا واحد کفیل شوہر یا بیٹا۔ اور جب اہل خانہ اپنے پیاروں کی خبرگیری کے لیے ہاسپٹلز پہنچے تو ایک اور بم حملے کا شکار ہو کر اپنی جان بھی گنوا بیٹھے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ ہماری پولیس، ایجنسیز اور فورسز اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نہیں نبھا رہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ایجنسیز جو کسی دہشت گرد حملے کی دھمکی کی اطلاع پیشگی پہنچا رہی ہوتی ہیں وہ ایسے حملوں کو روکنے کے لیے نہ صرف اپنا کردار ادا کرتیں بلکہ کوئی عملی قدم بھی اٹھاتیں۔
مانا کہ سینکڑوں لوگوں کے ہجوم میں کسی ایسے بندے کو تلاش کرنا یا پہچاننا ممکن نہیں ہوتا جو کہ خودکش بمبار ہو اور بم سے لیس جیکٹ پہنے ہوئے ہو یا کئی گاڑیوں اور بائیکس میں موجود ایسی گاڑی یا بائیک کی پہچان مشکل ہے جس میں بم نصب ہو لیکن کیا ذرا سی احتیاط سے ان حملوں سے بچنا ناممکنات میں سے ہے؟ اگر عوام کی بھی ایسی ہی حفاظت کی جائے جیسے بیوروکریٹس اور ارباب اختیار کی ہوتی ہے تو کیا یہ ممکن ہے کوئی دہشت گرد تنظیم یا فرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو جائے؟
دھماکہ خیز مواد سے بھرے ٹرک کے ٹرک ہر ٹول پلازہ اور چیک پوسٹ کو کراس کرتے ہوئے شہر کے اہم ترین مرکز یا ٹارگٹڈ عمارت تک پہنچ جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی بھی دفتر یا پبلک پلیس پہ چلے جائیے میٹل ڈیٹیکٹرز نصب ہوتے ہیں، سیکورٹی والے آپ کی چیکنگ کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بھی ان سیکورٹی والوں سے واسطہ پڑا منظر کچھ یوں تھا کہ مرد حضرات میٹل ڈیٹیکٹر ایک بار گھما کر اور مردوں کے پہلو تھپتھپا کر آل کلیئر کر کے جانے دیتے ہیں۔ اور خواتین چیکنگ اسٹاف کو ہمیشہ موبائل فون پہ اتنا مصروف پایا کہ وہ آنکھ کے اشارے سے شولڈر بیگ کھلوا کر گفتگو کے دوران ایک اچٹتی نظر بیگ کے اندر موجود اشیاء پہ ڈالتی ہیں اور بہت ہی کاشس ہوں تو اس میں ایک آدھ چیز پلٹ بھی لیتی ہیں۔ ایسی تلاشی کے بعد اگر کوئی خودکش بمبار اپنی جیکٹ اور بیگ سمیت کسی بھی جگہ کو دھماکے سے اڑا دے تو تعجب کی بات نہیں۔
دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والا مالی نقصان تو شاید پورا ہو جاتا ہے لیکن اس کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ جانی نقصان کی تلافی نہیں ہو پاتی۔ دوست احباب تادم مرگ اپنے پیاروں کی یاد میں تڑپتے ہیں مگر قرار نہیں پاتے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کہتے ہیں: "اس دن اور ہر دن آئیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ متاثرین اور ان حملوں میں بچ جانے والے ہمیشہ سنے جائیں اور کبھی بھلائے نہ جائیں۔ اور آئیے ہم مستقبل میں مزید متاثرین بننے سے بچنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔”
ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مل جل کر کوششیں کی جائیں اور اس کی روک تھام کی جائے۔