خیبر:طورخم بارڈر تین روز سے بند، تجارتی سرگرمیاں معطل، مزدور طبقہ پریشان

ازلان آفریدی
طورخم بارڈر کی بندش آج تیسرے روز بھی برقرار رہی، جس کے باعث دونوں طرف تجارتی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں اور مسافر و محنت مزدوری کرنے والے افراد شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ بارڈر کی بندش کے باعث نہ صرف تاجر اور ٹرانسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ سینکڑوں مزدور بھی بے روزگار ہو چکے ہیں جو روزانہ سرحدی علاقے میں محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے تھے۔
طورخم بارڈر کی بندش کے سبب افغانستان جانے والے مسافر بھی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ مسافر بارڈر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن کوئی واضح معلومات فراہم نہیں کی جا رہی کہ کب بارڈر کھلے گا۔ سرحد کے قریب موجود امیگریشن سینٹرز اور انتظار گاہوں میں مسافروں کا کہنا ہے کہ وہ تین دن سے بارڈر کے کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
بارڈر کی بندش کے باعث دو طرفہ تجارت بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ سینکڑوں ٹرک جن میں سبزیاں، پھل، ادویات اور دیگر ضروری سامان شامل ہے، سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں اور خراب ہونے کے خدشے کے باعث تاجروں کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ بعض سبزی اور فروٹ کی گاڑیاں واپس چلی گئی ہیں۔ تجارتی برادری کا کہنا ہے کہ اس بندش سے روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور برآمدات و درآمدات کا عمل معطل ہو چکا ہے۔
طورخم بارڈر پر یومیہ سینکڑوں مزدور محنت مزدوری کرتے ہیں اور سرحد کے آر پار سامان کی ترسیل میں مدد فراہم کرتے ہیں، مگر بارڈر کی بندش کے بعد یہ تمام مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں اور انہیں معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں اور اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں، مگر بارڈر کی بندش نے انہیں بدترین معاشی بحران میں دھکیل دیا ہے۔
گذشتہ ڈھائی سال میں طورخم گیٹ تقریباً 10 مرتبہ مختلف وجوہات کی بنا پر بند ہو چکا ہے، جس کے سبب دو طرفہ تجارت اور مسافروں کے سفر میں رکاوٹ آئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ابھی تک بارڈر کھولنے کے حوالے سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، جس کی وجہ سے تجارتی برادری، ٹرانسپورٹرز اور مزدور طبقے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔
متاثرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر کابل اور اسلام آباد میں اعلیٰ حکام کے درمیان مذاکرات کئے جائیں تاکہ بارڈر کھل سکے، تجارتی سرگرمیاں بحال ہوں اور مزدوروں کو دوبارہ روزگار مل سکے۔