ضلع خیبر کے ایک گاؤں کی پوری آبادی پانی سے محروم
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخواہ کے سابقہ قبائلی ضلع خیبرکے عوام پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے اور علاقے میں دہشتگردی سے متاثرہ عارضی بے گھر افراد کیلئے پانی کی طلب دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جبکہ دستیاب پانی کی مقدار میں کمی آرہی ہے۔
ضلع خیبر کے علاقے علی مسجد میں میلہ کورونہ مین شاہراہ سے تقریباً 1500 فٹ اوپر پہاڑ پر واقع ایک گاؤں ہے جہاں پر 300 کے قریب افراد رہتے ہیں، یہاں پانی کے حصول کیلئے صرف ایک کنواں موجود ہے۔
گاؤں کے پتھریلے راستوں سے ہوتے ہوئے علاقے کی خواتین اور بچے کنویں سے ڈولچوں کے ذریعے پانی نکال کے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
زمین سے اوپر کی جانب پہاڑ پر تقریباً دو انچ کا پلاسٹک پائپ بچھایا گیا تھا مگر وہ جگہ جگہ پھٹ چکا تھا، میلہ کورونہ کے رہائشی مولانا برکت اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ کچھ عرصہ پانی کی فراہمی کیلئے نیچے سے سپلائی پایپ لائن بچھائی گئی تھی لیکن کافی اونچائی کی وجہ سے پانی کا پائپ دباؤ برداشت نہیں کرسکا اور پھٹ گیا۔
برکت اللہ کا کہنا ہے کہ گاؤں میں صرف یہی ایک کنواں ہے، اس میں بیشتر اوقات پانی خشک ہوجاتا ہے تو گاؤں کے لوگ پانی کے حصول کیلئے اسے دوبارہ کھودتے ہیں۔
برکت علی کہتے ہیں "مون سون بارشوں کی وجہ سے کنویں کا پانی گدلہ ہو جاتا ہے تو پھر استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا حتی کہ گھر میں پینے کیلئے بھی دستیاب نہیں ہوتا، مرد تو نیچے جا کر تالاب سے اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں لیکن خواتین اور بچوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے’
انکے مطابق نیچے ٹیوب ویل اورجوہڑ سے پانی کی سہولت موجد ہے اگر اس کے اوپر واٹر موٹر اور اچھی کوالٹی کی دو انچ پائپ لگائے جائے تو گاؤں کے پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اس بارے میں گاؤں والوں نے تخمینہ لگایا ہے جسکے اوپر صرف 3 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
علاقہ مکین ٹی این این سے گفتگو کے دوران، قریبی گھروں کے بچے اپنے ہاتھوں میں لوٹے اور دیگر برتن پکڑ کنویں کی طرف آ رہے تھے، کنویں کے کنارے پانی کے حصول کے انتظار میں کھڑے 9 سالہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ وہ پانی کا بھرا ڈولچہ لیجانے کے دوران کئی بار تھک کر راستے میں آرام کرتاہے۔
عبداللہ چوتھی جماعت کا طالبعلم ہے، کہتا ہے کہ سکول میں اُنکے ساتھ یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ کیا کنویں میں پانی موجود ہوگا یا نہیں، "جب سکول سے واپس آتا ہوں تو فوراً ڈولچہ اُٹھا کر کنویں کی طرف آتا ہوں اور گھر کیلئے پانی اکٹھا کرنا شروع کرتا ہوں”۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں دہشتگردی کے لہر سے پہلے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے لیکن جب ان اضلاع میں دہشتگردی عروج پر رہی تو پاکستانی فوج نے مختلف ادوارں میں اپریشنز شروع کئے جسکے نتیجے میں مقامی لوگوں کو اپنے علاقے چھوڑنے پڑے۔
علی مسجد میلہ کورونہ کے عوام بھی سال 2012 میں وادی تیراہ سے عارضی طور پر منتقل ہوگئے ہیں، جسکی وجہ سے علاقے کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے مگر نو سال گزرنے کے باوجود بھی پانی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
علاقہ مکینوں کیلئے صاف پانی کا حصول درد سر بن گیا
سابق قبائلی اضلاع کا ہر تیسرا شہری پانی کے حصول کیلئے اپنا سکون اور وقت دونوں خرچ کر رہا ہے، میلہ کورونہ کے ایک رہائشی جاوید علی کا کہنا ہے کہ اُنکے گھر کی خواتین اور بچے یہی کنویں سے پانی حاصل کرتے ہیں لیکن رواں ماہ (مون سون) کے دوران انہیں کنویں سے بیشتر اوقات گندا اور گدلہ پانی ملا اور وہ پینے کے قابل نہیں تھا۔
پانی کی قلت کو کیسے دور کیا جائے؟
ضلع خیبر پی کے 61 سے بلوچستان عوامی پارٹی کے منتخب رُکن صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ علی مسجد میلہ کورونہ کیلئے وہ اپنے ذاتی بجٹ سے پانی کی فراہمی کا منصوبہ تعمیر کرے گا۔
انکا کہنا ہے کہ 2013 سے لیکر اب تک اُنکے سیاسی خاندان نے حلقہ میں پانی کے 90 فیصد مسائل حل کر لئے ہیں اور باقی منصوبے دو تین ماہ کے اندر مکمل ہوجائیں گے۔
دوسری طرف آبی امور کے ماہرین کے مطابق سابق قبائلی اضلاع میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اضافی پانی کی فراہمی کیلئے منصوبوں کو جنگی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ شہریوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ پانی کا استعمال اعتدال سے کرے۔