ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ لنڈی کوتل کی خواتین
خالدہ نیاز
‘میں جب روزانہ سکول سے واپس آتی ہوں تو اس کے بعد میں دور سے پانی لاتی ہوں کیونکہ ہمارے علاقے میں پانی نہیں ہے’
یہ کہنا ہے ضلع خیبر کے تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والی طالبہ یسریٰ کا جو آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران میردادخیل کی رہائشی یسریٰ نے بتایا کہ انکے علاقے میں نہ تو پینے کا پانی ہوتا ہے اور نہ ہی باقی ضرورت کے لیے اور انکو پانی لانے میں بہت دشواری پیش آتی ہے کیونکہ وہ اپنے سر پر پانی لاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف وہ بلکہ ان کے علاقے کی باقی لڑکیاں اور خواتین بھی گھر کی ضرورت کے لیے پانی دور دراز کے علاقوں سے لاتی ہیں۔ یسریٰ نے کہا کہ وہ پانی کا بہت خیال رکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ کم پانی استعمال کرے تاکہ انتہائی ضرورت کے وقت اس پانی کو استعمال کرسکیں۔
یسریٰ کے والد اختر علی شنواری جو ایک سوشل ورکر کے حیث پہ کام کرتے ہے کا کہنا ہے کہ نہ صرف انکے علاقے میں پانی کا مسئلہ موجود ہے بلکہ تحصیل لنڈی کوتل کے باقی علاقوں میں بھی لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔
پانی کی سطح بہت نیچے جاچکی ہے
اپنے علاقے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میرداد خیل میں پانی کی سطح بہت نیچے تک جاچکی ہے جس کی وجہ کنووں اور ٹیوب ویلوں میں پانی نہیں ہوتا اور لوگوں کو بہت مشکلات درپیش ہے۔ اخترعلی شنواری کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ لنڈی کوتل بازار سے ٹینکر میں پانی لاتے ہیں اور ایک ٹینکر کی قیمت 3 ہزار روپے ہیں لیکن یہاں اکثریت غریب لوگوں کی ہے اور وہ نہیں کرسکتے کہ اپنے لیے پیسوں پر پانی کا بندوبست کریں جبکہ خواتین کو پانی نہ ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ چاہے گرمی ہو یا سردی خواتین کئی کلومیٹر کا پیدل سفر کرکے اپنے سروں پر پانی لاتی ہیں۔
ان کے مطابق میردادخیل کی آبادی 30 ہزار افراد پرمشتمل ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کسی نے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سوشل ورکر کے حیث پہ وہ پچھلے 15 سالوں سے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کبھی ایک کے پاس جاتا ہے تو کبھی دوسرے کے پاس لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
‘میردادخیل میں پانی کی سطح بہت نیچے تک گئی ہے اور ہم نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اگر یہاں پانی کے چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنائے جائے تو اسکی وجہ سے سطح اوپر کو آجائے گی لیکن افسوس اس پہ بھی کوئی کام نہ ہوسکا اور جہاں کہیں ڈیمز بنے ہیں تو اس میں بھی کرپشن ہوئی ہے اور لوگ پانی کو ترس رہے ہیں’ اختر علی شنواری نے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ایم این اے اور ایم پی اے اپنے نمبرز بنانے کے لیے کہتے ہیں کہ شلمان واٹر سپلائی سکیم پہ کام کیا ہے لیکن عملی کام کہیں بھی نظر نہیں آرہا۔
کئی سال گزرنے کے باوجود بھی شلمان کا پانی دیکھنا نصیب نہیں ہوا
‘ہم چھوٹے چھوٹے ہوا کرتے تھے تب سے سنتے آرہے ہیں کہ شلمان کا پانی آئے گا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود بھی شلمان کے پانی کو دیکھنے نصیب نہیں ہوا، بات صرف پینے کے پانی کی نہیں ہے یہاں تو کپڑے دھونے، نہانے اور باقی ضروریات زندگی کے لیے بھی پانی نہیں ہے’ سوشل ورکر نے کہا۔
نہ صرف میردادخیل میں پانی کا مسئلہ موجود ہے بلکہ لنڈی کوتل کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ پانی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے۔ شیخ ملخیل کا علاقہ بھی ایسا ہے جہاں پانی کی سطح نیچے جاچکی ہے اور لوگ کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ شیخ ملخیل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے قیوم شنواری نے بتایا کہ یہاں پر پینے کا پانی اور دوسری ضرورتوں کیلئے استعمال ہونے والے پانی کی شدید کمی ہے، لوگوں نے بور لگائے ہیں تقریبا دوسو ستر فیٹ نیچے سے پانی آتا ہے جب کے باقی علاقوں میں پچاس فیٹ تک بھی پانی آتا ہے۔
پانی کو سٹور کرنے کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں
‘ہمارے لنڈی کوتل میں جب ہم بور لگاتے ہیں تو سب سے بڑا مسلہ یہ ہوتا ہے کہ کبھی کالا پتھر نکل اتا ہے تو کبھی ریت اور پانی کو سٹور کرنے کیلئے بھی کوئی نظام نہیں اور جو لوگ بور پر اپنے ساٹھ ستر ہزار لگا دیتے ہیں تو اس میں پانی بمشکل دس گیلن تک ہوتا ہے’ قیوم شنواری نے کہا۔
انہوں نے کہا کہ پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ نے کچھ علاقوں میں دو تین ٹیوب ویل لگائے جو کامیاب ہوئے تو اگر سارے علاقوں کو یہ سہولت دی جائے تو پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
لنڈی کوتل کے کے علاوہ ضلع خیبر کے باقی علاقوں میں بھی پانی کا مسئلہ موجود ہے۔ حکومت نے اس مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈنے کے لیے پچھلے سال ضلع خیبرمیں جبہ ڈیم کی منظوری بھی دی ہے جس پر 9 ارب 90 کروڑ 65 لاکھ روپے کی لاگت آئے گی۔ جبہ ڈیم سے فلٹریشن پلانٹ لگاکر روزانہ تین کروڑ 23 لاکھ گیلن یومیہ پانی حاصل کرنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
قیوم شنواری نے کہا کہ جب برف باری ہوتی ہے تو پانی کی سطح اچھی ہوجاتی ہے لیکن سٹورج سسٹم نہیں ہے اور نہ ہی ڈیم بنے ہیں جس سے پانی کو سٹور کیا جاسکے۔ نہریں موجود ہیں لیکن اس سے پانی کا سسٹم کرنے پر 12 لاکھ روپے تک کی لاگت آتی ہے اور لوگوں کی اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اتنا خرچہ کریں اس پہ۔
بارانی ڈیمز بننے سے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے
لنڈی کوتل کے مقامی صحافی محراب آفریدی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لنڈی کوتل میں پانی کی سطح بہت نیچے گئی ہے کیونکہ ایک تو بارشیں کم ہوتی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ لنڈی کوتل میں بارانی ڈیمز نہیں ہے اگر بارانی ڈیمز یہاں بن جائے تو اس سے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے گا۔
شلمان واٹر سپلائی سکیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ اس پہ کام کریں گے تاکہ مقامی لوگ اس سے پانی حاصل کرسکیں لیکن عملی کام کوئی نہیں کرتا۔ محراب آفریدی کا کہنا ہے کہ شلمان واٹر سپلائی سکیم سے لنڈی کوتل کی 80 فیصد آبادی کا پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
پی سی ون شلمان واٹر سپلائی سکیم
محراب آفریدی نے بتایا کہ شلمان واٹر سپلائی سکیم کے ساتھ لنڈی کوتل میں بارانی ڈیمز بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے پانی کی سطح اوپر کو آجائے گی اور یوں لوگ گھروں میں ہی پانی کا بندوبست کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے شلمان واٹر سپلائی سکیم کے حوالے سے پی سی ون رپورٹ مئی 2021 میں تیار کرلی گئی ہے ، منصوبے پر 5534 ملین روپے لاگت آئے گی، لنڈی کوتل کے متعدد علاقوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے گا۔
ضلع خیبر سے منتخب ایم پی اے شفیق شیر آفریدی کا کہنا ہے کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام2019، 20 میں شلمان واٹر سپلائی سکیم کے صرف سروے کے لیے تین کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس پہ کراچی کے ایک کنسلٹنٹ کمپنی نے کام کیا، اس منصوبے کے تحت دریائے کابل سے پانی کو لنڈی کوتل تک لایا جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ باقی چھوٹے سکیموں پربھی کام ہورہا ہے تاکہ پانی کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔
یسریٰ نے منتخب نمائندوں اور متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ لنڈی کوتل میں پانی کا مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ وہ اور باقی بچیاں اپنا قیمتی وقت پانی لانے میں ضائع نہ کریں اور پڑھ لکھ کر ملک و قوم کا نام روشن کرسکیں۔