فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

شیڈول فورتھ ہے کیا اور اس میں نام کب، کیوں اور کیسے ڈالا جاتا ہے؟

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران نوجوانوں کی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے چھ سرگرم کارکنوں کے نام انسدادی دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت شیڈول فورتھ میں ڈالے گئے ہیں۔

شمالي وزيرستان سے آزاد حيثيت سے منتخب اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے مخالف رُکن صوبائي اسمبلي مير کلام خان وزير نے ٹی این این کو بتایا کہ گزشتہ دو تین ماہ کے دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے چھ وفادار کارکنوں کے نام شیڈول فورتھ میں شامل کئے گئے ہیں جن میں ادریس پشتین، شاہد شیرانی، زوہیب پشتین، اعجاز پشتین، تنویر جرار اور عبداللہ ننگیال شامل ہیں۔

میرکلام نے بتایا کہ نوجوانوں کی تحریک کے کچھ سرکردہ رہنماؤں نے وزارت داخلہ سے وجوہات پوچھنے کی درخواست کی ہے کہ کیوں اُن کو شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا ہے؟ مگر فی الحال انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں 19 اپریل کو خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلی میں ‘توجہ دلاؤ’ نوٹس بھی جمع کراؤں گا جس میں ایوان سے مطالبہ کریں گے کہ پرامن تحریک چلانے والے پشتون نوجوانوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسی سلوک بند کیا جائے۔

ممبر صوبائی اسمبلی نے کہا کہ لسٹ میں شامل کئے گئے طالبعلم بھی ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ افراد کو لسٹ سے نکالا جائے بصورت دیگر وہ عدالت سے بھی رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

میرکلام نے دعوی اور سوال کیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین کی بالادستی کیلئے آواز اُٹھانے والی تحریک ہے تو پھر کس بنیاد پر تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام شیڈول فورتھ میں ڈالے گئے ہیں؟

شیڈول فورتھ کیا ہے؟

انسداد دہشتگردی کے قانون 1997 کے مطابق اگر کوئی خفیہ ادارہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائے جس کا دہشتگرد تنظیم سے بالواسطہ یا بلا واسطہ وابستگی ہو تو اُسے ایک لسٹ میں شامل کیا جاتا ہے جسے شیڈول فورتھ کہا جاتا ہے۔

قانون کے مطابق سیکورٹی ادارے (پولیس، سپیشل برانچ اور سویلین انٹلیجنس) شیڈول فورتھ میں شامل افراد کی نقل و حرکت، کاروبار اور تقریر پر کڑی نظر رکھیں گے، فہرست میں نام شامل ہونے کے بعد متلقہ شخص اپنی نقل و حرکت کے بارے میں اپنے ضلعی پولیس آفیسر کو آگاہ کرے گا۔

اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل منظور بشیر تنگی نے بتایا کہ یہ قانون تب لاگو ہو سکتا ہے جب کسی فرد کا ایک ایسی تنظیم سے تعلق ہو جو حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی ہو یا اُس تنظیم کی نگرانی کی جا رہی ہو تو صوبائی حکومت اُس شخص کے متعلق وزارت داخلہ کو شفارشات بھیجے گی اور اُسی کی سفارشات کے نتیجے میں متعلق شخص کا نام شیڈول فورتھ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ لسٹ میں نام شامل ہونے کے بعد ممنوعہ شخص اپنے ضلعی ڈی پی او کو شورٹی بانڈ دے گا اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو متعلقہ پولیس اُسے گرفتار کر سکتی ہے اور پھر عدالت کے سامنے پیش کرے گی، عدالت اُس سے ضمانتی مچلکے لینے کا حکم دے گی۔

منظور بشیر نے بتایا کہ مذکورہ قانون یہ اجازت نہیں دیتا کہ اگر کسی بندے کا کسی کلعدم تنظیم سے تعلق نہ ہو یا صرف چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث ہو تو اُسے اسی فہرست میں شامل کیا جائے، شیڈول فورتھ میں شامل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کا تعلق کالعدم تنظیم سے یا اس کے ساتھ روابط ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر بدنیتی سے کسی عام بندے کا نام لسٹ میں شامل کرے تو یہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 4 کی خلاف ورزی ہو گی جس کا مطلب شہری کی آزادی سلب کرنا ہے، اگر ایسا ہوا تو متعلقہ شخص آئین کے آرٹیکل 10 (4) کے تحت ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ منظور بشیر کا کہنا ہے کہ انسدادی دہشتگردی کا ادارہ نیکٹا قانون کے مطابق کسی شخص کو صرف تین سال تک شیڈول فورتھ میں رکھ سکتا ہے بصورت دیگر اس کا نام نکالا جائے گا۔

نیشنل کاونٹر ٹیرارزم (نیکٹا) کی ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ سات سالوں کے دوران شیڈول فورتھ میں ملک بھر کے 8237 افراد شامل کئے گئے ہیں جن میں 4775 افراد کا نام نکالا جا چکا ہے۔

طے شُدہ قواعد و ضوابط کے مطابق شیڈول فورتھ میں نام شامل کرنے یا نہ کرنے کا اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہوتا ہے جو ضلعی کمیٹیوں کی طرف سے بھیجی جانی والی رپورٹ پر فیصلے کرتی ہیں۔

کیا ایسے اقدامات سے امن کا قیام اور دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہے؟

حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے تحقیق کاروں کا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کیلئے آواز اُٹھانے والوں کے خلاف طاقت اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے لوگ قوانین کے نفاذ سے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ہائے پیس اینڈ کونفلیکٹ سٹڈیز کے چیئرمین اور امن و امان پر گہری نظر رکھنے والے تحقیق کار پروفیسر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں پر سیاسی اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کے نام شیدول فورتھ میں ڈالے گئے ہیں جس کے نتائج براہ راست پاکستان بھگت چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کی ایک پُرامن تحریک ہے اور بغیر کسی وجہ بتائے ان کے کارکنوں کے نام شیڈول فورتھ میں شامل کرنے سے امن کے قیام اور دہشتگردی کو ختم کرنے کی توقع رکھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

پروفیسر چترالی نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں جمہوری ادارے نہایت کمزور اور غیرجمہوری ادارے مضبوط ہیں پھر ان غیرجہوری اداروں کی سرپرستی میں پالیسیاں بنتی ہیں اور بالآخر اُن کا نفاذ ملک کے نقصان کا سبب بنتا ہے۔

جمیل چترالی نے کہا کہ شیڈول فورتھ میں ان مجرمان کے نام شامل کئے جاتے ہیں جن کا دہشتگرد تنظیموں سے تعلق ہو اور یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ دہشتگردوں یا اُن کے حمایتیوں نے کبھی پاکستانی آئین پر عمل درآمد کی بات نہیں کی لیکن پی ٹی ایم آئین پر عمل درآمد کی بات مسلسل کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون پر عمل درآمد کے مطالبے کے باوجود نوجوانوں کے نام شیڈول فورتھ میں شامل کرنا بغاوت پر اُکسانے کے مترادف ہے مگر ماضی کی روایات سے مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی ایم کے نوجوان تشدد کا راستہ اختیار کریں گے۔

خبیر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کا موقف کیا ہے؟

پی ٹی ایم کے چھ افراد کا شیڈول فورتھ کا حصہ بننے کی وجوہات جاننے کیلئے ٹی این این نے وزیراعلٰی کے مشیر اطلاعات کامران بنگش سے کئی بار فون پر رابطے اور واٹس ایپ کے ذریعے جواب لینے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جب اس حوالے سے نومنتخب وزیر قانون فضل شکور خان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ شیڈول فورتھ کے معاملے سے لاعلم ہیں اور کہا کہ فی الحال انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے بریفنگ نہیں لی لیکں قیاس ظاہر کر کے بتایا کہ "اگر حکومت نے ایسا کوئی قدم اُٹھایا ہے تو اُس کے پاس ٹھوس ثبوت ہوں گے۔”

انہوں نے الزام لگایا کہ "پی ٹی ایم کے ایسے ویڈیوز اور بیانات موجود ہیں جو ملک کی سالمیت کے خلاف ہیں”، مگر یہ واضح نہیں کیا کہ کون سے ویڈیوز اور بیانات ملک کے خلاف ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کیا ہے؟

دہشتگردی سے متاثرہ قبائلی اضلاع کے متاثرین کے حقوق کے نام پر 2014 سے پشتون نوجوانوں کی ایک تحریک شروع ہوئی جسے پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے متعارف کروایا گیا جس کے جلسوں اور احتجاجی مظاہروں میں اکثر حکومت اور امنیتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

لیکن دوسری طرف حکومت کا الزام ہے کہ پی ٹی ایم ہمسایہ ملک افغانستان اور ہندوستان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور ملک کے اندر نوجوانوں کو بغاوت پر اُکسا رہی ہے، اسی الزام کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف تھانوں میں تحریک کے کئی کارکنوں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔

ان درج شدہ مقدمات کے نتیجے میں پی ٹی ایم کے کارکنان پاکستان کی عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے جن میں سے بیشتر مقدمات میں وہ بری بھی ہو چکے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button