فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

‘روزانہ چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے سکول پہنچتا ہوں’

 

تحریر: زاہد جان

ضلع باجوڑ کے تحصیل خار علاقہ سمسئی دامان شاہ کا مسیح اللہ روزانہ چار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے اپنے گاؤں سے دور قائم پرائمری سکول میں علم پیاس بجھانے کیلئے جاتا ہے کیونکہ اُس کے گاؤں میں سکول نہیں ہے۔ مسیح اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی بار محکمہ تعلیم باجوڑ کو مطلع کیاکہ اس علاقہ میں سکول قائم کیاجائے تاکہ انکو دور دراز علاقوں میں حصول تعلیم کیلئے نہ جانا پڑے لیکن ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی۔

گاؤں سمسئی دامان شاہ 100گھرانوں پر مشتمل علاقہ ہے لیکن یہ علاقہ زندگی کے بنیادوں سہولتوں سے محروم ہے۔

یہ حال صرف سمسئ کا نہیں ہے بلکہ باجوڑ میں کئی ایک ایسے علاقے ہیں جہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ضلع باجوڑ کا ایک اور گاؤں اسلام گٹ بھی زندگی کی بنیادوں سہولتوں سے محروم ہیں۔ یہ علاقہ ضلع باجوڑ اور ضلع لوئر کے سرحد پر ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ یہاں پر بھی نہ تو لڑکیوں کا پرائمری سکول ہے اور نہ ہی بوائز پرائمری سکول ہے۔ اس علاقے میں مقامی لوگوں کے تعاون سے عارضی سکول کیلئے جگہ بنائی گئی ہے اور ایک پراجیکٹ کے تعاون سے یہاں پر سکول چلتاہے جو کبھی کبھار فنڈز نہ ہونے کیوجہ سے بند ہوجاتاہے، کبھی تین ماہ اور کبھی پانچ ماہ تک بند رہتاہے جبکہ کبھی مقامی لوگوں کے چندے سے دوبارہ سکول فعال کیاجاتاہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس عارضی سکول میں پانچویں جماعت تک کلاسز لی جاتی ہیں اور 150بچے زیر تعلیم ہیں۔ آٹھویں جماعت پاس دو لڑکے اس سکول میں بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 25Aکے تحت ریاست پانچ سال سے لیکر16سال تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کریگا لیکن باجوڑ کے کئی بچے سکول نہ ہونے کی وجہ سے زیور تعلیم سے محروم ہیں۔

ضلعی ایجوکیشن آفیسر باجوڑ ارباب شیرین زادہ کے مطابق ضلع باجوڑ میں 265گاؤں ایسے ہیں جہاں یا تو گرلز پرائمری سکول نہیں ہے یا بوائز پرائمری سکول نہیں ہے اور یا دونوں نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم اُن علاقوں کو سکولوں کیلئے فزیبل قرار دیتاہے جس کی آبادی 800سے ذیادہ ہو۔انہوں نے بتایا کہ265گاوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مزید گاؤں بھی ہیں لیکن وہاں پر انہوں نے سکول بنانے کے سفارشات نہیں بھیجوائے ہیں کیونکہ پالیسی کے مطابق سکول اُس گاوں میں بنے گا جس کی آبادی 800نفوس سے ذیادہ ہو۔
ضم شدہ اضلاع میں سال2007سے لیکر2020تک نئے سکولوں کی تعمیر پرپابندی تھی تاہم فاٹا انضمام کے بعد تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے یہ پابندی ختم کردی اور خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ محمود خان نے 100نئے پرائمری سکولوں کی تعمیر کی منظوری دی جس میں ضلع باجوڑ کے حصے میں 12سکول آئے جس کے بعد محکمہ تعلیم باجوڑ نے 12نئے پرائمری سکولوں کے لئے مختلف علاقوں کا انتخاب کیا اور ان کا پی سی ون بھی حکومت کو منظوری کیلئے ارسال کیاہے۔

ڈی ای او باجوڑ شیرین زادہ کے مطابق مذکورہ علاقوں کا انتخاب منتخب نمائندوں کے کہنے پر کیاگیا ہے اور ان میں 3سکول حلقہ این اے 41، تین سکول حلقہ پی کے100، تین سکول حلقہ پی کے101، اور تین سکول حلقہ پی کے102میں رکھے گئے ہیں۔ ان سکولوں میں گرلز پرائمری سکول چورک، گرلز پرائمری سکول اوڈیگرام، گرلز پرائمری سکول بیگل ناراضہ، گرلز پرائمری سکول دامان شاہ ارنگ، گرلز پرائمری ارنگے اتمانخیل، گرلز پرائمری سکول نظر مینہ برنگ، بوائز پرائمری سکول جلالی سر برنگ، بوائز پرائمری سکول جدو برنگ، بوائز پرائمری سکول شکرو ماموند، گرلز پرائمری سکول نختر ماموند، گرلز پرائمری سکول سیداشاہ چارمنگ اور گرلز پرائمری سکول ہلکی چارمنگ شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ نئے سکولوں میں زیادہ سکول گرلز کیلئے رکھے گئے ہیں کیونکہ ضلع باجوڑ میں گرلز سکولوں کی بہت ذیادہ کمی ہیں اور اس وجہ سے خواتین کی شرح خواندگی بھی کم ہے۔

سمسئی دامان شاہ اور اسلام گٹ میں پرائمری سکول نہ ہونے کے حوالہ سے ڈی ای او نے بتایا کہ مذکورہ علاقوں کا وزٹ کرکے سروے کرینگے اور ان علاقوں میں سکولوں کی تعمیر کیلئے سفارشات حکومت کو ارسال کرینگے۔

محکمہ تعلیم باجوڑ کے مطابق ضلع باجوڑ میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد89000ہزار ہیں جن میں 55ہزار بچیاں اور 34ہزار بچے شامل ہیں۔ ان میں چار سال سے لیکر 14سال تک کے بچے شامل ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سکول سے باہر بچوں کی کئی بنیادی وجوہات ہیں ان میں سے بنیادی وجہ سکولوں کا نہ ہونا بھی ہے دیگر وجوہات میں غربت بھی شامل ہے کیونکہ یہاں پر والدین بچوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ذیادہ تر بچے غربت کیوجہ سے محنت مزدوری پر مجبور ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں آگاہی نہیں ہے، والدین ناخواندہ ہیں اور اُن کے پاس تعلیم کی اہمیت نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ بچوں کے تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے۔

بچیوں کے سکول سے باہر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قبائلی معاشرہ ہے اس وجہ سے زیادہ تر خاندان بچیوں کو سکول بھیجنا پسند نہیں کرتے۔ زیادہ تر سکولوں میں گنجائش سے زیادہ طلبہ زیر تعلیم ہیں اور سرکاری سکولوں میں اُن کو جگہ نہیں ملتی جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا اُن کے بس سے باہر ہوتاہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فاٹا انضمام سے قبل یہاں کے سکولوں میں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں تھی جس کیوجہ سے والدین بچوں کو سکول بھیجنے سے کتراتے تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button