فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

ایک ٹانگ سے محروم وزیرستانی لڑکی، کوئی بھی کھیل کھیلے تو لوگ دیکھتے رہ جائیں

 

خالدہ نیاز

‘2004 میں جب میں 14 سال کی تھی تو میرے ساتھ ایک حادثہ ہوا، میں لینڈ مائنز یعنی زمین میں بچھائے گئے بارودی مواد کی زد میں آ گئی، دھماکہ ہوا اور میں ایک پاؤں سے محروم ہو گئی’

یہ کہانی جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی گلشن کی ہے جنہوں نے معذوری کو اپنی کمزوری بنانے کی بجائے اسے اپنی طاقت بنالی اور اب وہ ٹیبل ٹینس اور پاور لفٹنگ کی ایک اچھی کھلاڑی بن چکی ہے۔ گلشن 2018 سے یہ دونوں گیم کھیل رہی ہیں اور اب تک تین گولڈ میڈل بھی جیت چکی ہیں، 2018 میں پاور لفٹنگ میں گولڈ میڈل جبکہ 2019 میں پاور لفٹنگ اور ٹیبل ٹینس دونوں میں پہلی پہلی پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔

گلشن نے بتایا کہ ان کو بچپن سے گیمز کے ساتھ لگاو تھا لیکن چونکہ ان کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہیں تو وہاں پرلڑکیوں کو تعلیم اور گیمز کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کو میڈیا پر آنے کی اجازت ہوتی ہے۔

گلشن کیسے گیمز کی طرف آئی اس حوالے سے انہوں نے بتایا’ جب میرے ساتھ حادثہ ہوا تو اس کے بعد میں معذور ہو گئی، زیادہ وقت گھر میں گزارنے کیوجہ سے میں بہت تنگ ہو گئی تھی، کسی نے ایک ادارے کے بارے میں بتایا تو میں وہاں چلی گئی، وہاں مجھے بتایاگیا کہ آپ اگر کھیلیں گی تو آگے جا سکتی ہیں، اس وقت سے (2018) سے میں نے کھیلنا شروع کر دیا اور کامیابی کے ساتھ میرا سفر جاری ہے اور انشاء اللہ بہت آگے جاؤں گی۔’

میں جب پہلی بار سنٹرآئی تو میرا خیال تھا کہ میں یہاں سلائی کا کام سیکھ لونگی لیکن وہاں مجھے بتایا گیا کہ آپ گیم کھیلنا بھی سیکھ لیں، میں نے ابو سے بات کی تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں جب آپ کا شوق ہے تو آپ ضرور کھیلیں، پھر باقی گھر والوں نے بھی اجازت دی اب سب بہت خوش ہیں، میرا چھوٹا بھائی اور میرے ابو مجھے بہت زیادہ سپورٹ کرتے ہیں۔

مشکلات کا ذکرکرتے ہوئے گلشن نے کہا کہ نارمل لوگوں کے لیے تمام ترسہولیات موجود ہیں، لیکن معذور افراد کیلئے نہ سہولیات ہیں اور نہ ہی ان کو کوچز وقت دیتے ہیں لیکن ہم اپنی محنت کرتے ہیں، ادارے کی جانب سے جب کچھ میسر ہوتا ہے تو ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے ایبٹ آباد اور پشاور میں زیادہ کھیلا ہے۔

14 اگست کو بھی قیوم سٹیڈیم میں کھیلوں کے مختلف مقابلے منعقد ہوئے، مختلف کھلاڑی بلائے گئے تھے لیکن معذور کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا گیا تھا، تو انسان خفا ہو جاتا ہے، معذور بھی کھلاڑی ہیں وہ بھی آگے جانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں، جو تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ انکو سپورٹ کرتے ہیں، لیکن آن پڑھ اور قدامت پسند لوگ ان کے کھیلنے کے خلاف ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں گیمز نہیں کھیلنے چاہیئے۔

وزیرستان میں سہولیات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیرستان میں لڑکیوں کیلئے کھیل کا کوئی سہولت موجود نہیں اور اگرسہولیات دی بھی جائے تو بھی تو ان کو کوئی کھیلنے کا اجازت نہیں دیگا۔

گلشن کو پاکستان سے باہر بھی کھیلنے کا شوق ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ ملک کے لیے بین الاقوامی سطح پرکھیلں، ان کا کہنا ہے کہ اگر کبھی انکو باہر کے ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا تو ضرور جائیں گی کیونکہ انکی فیملی بھی اس معاملے میں انکو سپورٹ کرتی ہیں۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کیوں کھیلتی ہیں آپ تو معذور ہیں، کبھی کبھار جب میں بازار جاتی ہوں تو کچھ لوگ کہتے ہیں یہ بازار میں کیا کرتی ہیں جس پر میں بہت زیادہ خفا ہوتی ہوں پھر میں سوچتی ہوں کہ کیا معذور لوگوں کا دل نہیں ہوتا؟ پھر مجھے خیال آتا ہے میں تو ہر کام کرسکتی ہوں تو میں خود کو کیوں معذور سمجھوں۔

‘ہمارے ساتھ جتنی معذور لڑکیاں ہیں ان کے  آگے جانے پر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے، ایک لڑکی باہر ملک کھیلنے چلی گئی، اسے دیکھ کر مجھے نہ صرف خوشی ہوئی بلکہ بہت حوصلہ بھی ملا کہ آج یہ گئی کل میں بھی چلی جاوگی’ گلشن نے بتایا۔

میں کہتی ہوں کہ ضم اضلاع میں معذور خواتین کو ٹرانسپورٹیشن کا بہت زیادہ مسئلہ ہے، یہاں پشاور میں بہت سہولیات ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ ضم اضلاع میں بھی خواتین کیلئے ایسی سہولیات ہونی چاہیئے’ گلشن نے کہا۔

گلشن کے مطابق قبائلی اضلاع کے عوام کی سوچ میں صرف ایجوکیشن ہی تبدیلی لا سکتی ہے، اگر قبائلی عوام کو تعلیم دی جائے تو وہ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں گے اور ان کو باقی سہولیات بھی دیں گے۔

لڑکیوں کیلئے پیغام دیتے ہوئے گلشن نے کہا کہ اپنی آپ کو کبھی کمتر مت سمجھیں جو صلاحیتیں ہیں جو جذبات ہیں دل میں اس کا کھل کر اظہار کریں تو ضرور آگے جائیں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button