‘میں اس خوف سے ہسپتال نہیں جا رہی کہ کہیں مجھے قرنطینہ سنٹر میں نہ ڈال دیں’
بشری محسود
‘کمر درد کے ساتھ میں کئی دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوں، لیکن میں سرکاری ہسپتال نہیں جا سکتی، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ قرنطینہ سنٹر میں بند نہ کر دیں،’
یہ کہانی جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی زینب محسود کی ہے جو تکلیف کے باوجود ہسپتال جانا گوارا نہیں کرتی۔
زینب محسود نے بتایا، ‘ہم نے کرونا وائرس سے متاثرہ ایسے بہت مریضوں کو دیکھا ہے جن میں کرونا وائرس کی علامات نہیں ہوتیں لیکن ان کے ٹیسٹ مثبت آ جاتے ہیں اس لئے مجھے بہت تکلیف ہے اور کورونا کے خوف کی وجہ سے میں ہسپتال جانے سے بھی کترا رہی ہوں۔’
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات ان کے لئے بہت مشکل ہیں، پرائیوٹ کلینکس میں مریض کا معائنہ اور علاج ہوتا ہے لیکن وہاں اتنا رش ہے کہ نمبر لینے بھی کیلئے کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے، دوسری بات یہ کہ وہاں بیٹھے ڈاکٹرز بھاری بھاری فیس لیتے ہیں، ٹیسٹوں کے علاوہ دوائیاں بھی اپنے پیسوں سے لینا پڑتی ہیں جو ہم جیسے غریب لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
زینب محسود نے کہا کہ وہ بہت پریشان ہے، اب کمر کی تکلیف کے ساتھ ساتھ ڈپریشن میں بھی مبتلا ہے، ‘جب میں سرکاری ہسپتال جانے کا ارادہ کرتی ہوں تو کوئی نہ کوئی یہ کہہ کر منع کر دیتا ہے کہ وہاں آپ کے کمر درد کا علاج نہیں کیا جائے گا بلکہ آپ کا کرونا ٹیسٹ ہو گا، اور وہ آپ کو قرنطینہ سنٹر میں بند کر دیں گے، آپ کو وقت پر کھانا ملے گا نہ ہی کسی سے آپ کی بات ہو سکے گی، یہ سن کر میں اپنا ارادہ بدل دیتی ہوں اور یوں ہر روز کمر درد کی وجہ سے وقت انتہائی تکیلف دہ گزرتا ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی میں سٹرکچرل بائیولوجی پڑھانے والے نوبل انعام یافتہ استاد پروفیسر مائیکل لیوٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے شرح اموات میں اضافہ ہوا ہے (کیونکہ) دیگر بیماریوں کی بروقت تشخیص نہ ہونے اور بروقت طبی سہولیات نہ ملنے سے اموات زیادہ ہوئیں، اس کے علاوہ شہریوں میں ڈپریشن نفسیاتی بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ضلع کرم سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن فاطمہ نے کہا کہ زیادہ تر لوگ ڈر کے مارے ہسپتال نہیں جاتے، ان کو کورنٹائن کا خوف ہوتا ہے، اکثر لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے ہیں، ہارٹ اور بلڈ پریشر کے مریض انتہائی تکلیف کے باوجود ہسپتال نہیں جاتے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہسپتالوں میں او پی ڈیز بند ہونے کی وجہ سے بھی نہیں جاتے کیونکہ وہاں کورونا مریضوں کا علاج ہو رہا ہے، یہاں ایک مریض جس کو ہارٹ اور بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے، اس کا ریگولر علاج سی ایم ایچ سے ہو رہا تھا لیکن اب پابندی کی وجہ سے وہ وہاں جا نہیں سکتے اور یہاں اس کو دوائیاں نہیں ملتیں، اس وجہ سے وہ سخت مشکل سے دوچار ہے۔
فاطمہ نے بتایا کہ جس علاقے سے وہ تعلق رکھتی ہیں، وہاں ہسپتال فعال ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لوگ خوف کی وجہ ہسپتال نہیں جاتے، کسی کو نزلہ، زکام یا کوئی الرجی ہو تو وہ ڈرتا ہے کہ اسے قرنطینہ کیا جائے گا۔
دوسری طرف ڈپٹی ہیلتھ آفیسر جنوبی وزیرستان ڈاکٹر ولی رحمان کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط میں صوبائی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا کہ کرونا وائرس کے خطرات کے پیش نظر تمام او پی ڈیز سروسز بند رہیں گی، صرف ایمرجنسی خدمات دی جائیں گی، اس وجہ سے یہاں بھی تمام او پی ڈیز بند تھیں، لیکن اپریل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر او پی ڈیز واپس بحال کر دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ولی رحمان نے بتایا کہ بندش کے دوران بھی ان کا سٹاف موجود ہوتا تھا، علاقے میں جو ایمرجنسی پیش آتی تھی تو وہ اسے ڈیل کرتے، ‘ہم نے سٹاف کے چند بندوں کو رپیڈ ریسپانس ٹیم کی ذمہ داریاں حوالے کی تھیں اور باقی سٹاف کی ڈیوٹی کورنٹائن سنٹرز میں لگائی تھی۔’
ڈاکٹر ولی الرحمن کے مطابق دستیاب وسائل میں نہ صرف مریضوں کا تفصیلی معائنہ کیا جاتا ہے بلکہ مفت ٹیسٹ اور ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں، ‘او پی ڈی سروسز بحال ہیں اور جب تک ہائی آفس سے احکامات نہیں آتے یہ بحال ہی رکھیں گے۔’
انہوں نے کہا کہ لوگ سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے غلط پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، جن مریضوں میں علامات ہوتی ہیں ہم ان کی بہتر صحت کی خاطر ان کے ٹیسٹ کرواتے ہیں، ان کو سہولیات مہیا کرتے ہیں، اور ان کا ہر لحاظ سے خیال رکھتے ہیں، ‘ہم اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر عوام کیلئے ہی بیٹھے ہیں، عوام کا تعاون ہو گا تو ہم اس وبائی مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔’
کلثوم کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ ایک سکول میں پڑھاتی ہیں، اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ کرونا ایک عالمی وباء ہے، پوری دنیا میں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں لیکن یہاں لوگ ان مریضوں سے نفرت کرتے ہیں، ڈاکٹروں کا رویہ بھی عجیب ہوتا ہے، علاقے کے لوگوں کا ذہن بھی ایسا بنایا گیا ہے کہ ان کو کرونا وائرس کے مریض عجیب مخلوق لگتے ہیں، لوگ ان سے دور بھاگتے ہیں، یہ بات غلط ہے، ان کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی ہمت بڑھانے کی ضروت ہوتی ہے، شعور نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا منفی رویہ ان مریضوں کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے اس حوالے سے مزید آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ کرونا وائرس کے شکار مریض کے خاندان سے بھی دور بھاگتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں کرنا چاہئے البتہ حکومت نے جو ایس او پیز بتائے ہیں عوام کو ان پر عمل کرنا چاہئے۔
کلثوم نے کہا کہ لوگ سرکاری ہسپتال نہیں جاتے اور حکیموں اور گھریلو ٹوٹکوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف برائے نام حکیموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان پر رش بھی پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہو گیا ہے اور اس طرح علاج کی بجائے مریضوں کی تعداد اور ان میں موجود بیماریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
ملک کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں جنوبی وزیرستان میں اب تک کرونا وائرس کے انتہائی کم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ لوگوں کا علامات کے باوجود ٹیسٹ نہ کروانا ہے۔
یاد رہےجنوبی وزیرستان میں 178 مریضوں سے ٹیسٹ کیلئے نمونے لیے گئے ہیں جن میں سے 177 کے رزلٹ آ چکے ہیں، ان میں سے 15 میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی جبکہ 161 مریضوں کے ٹیسٹ نفی میں آئے ہیں، 15 میں سے 8 مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔