ضلع کرم میں قبائلی تاریخ کا پہلا خواتین پولیس سنٹر
خالدہ نیاز
قبائلی اضلاع کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین وویمن پولیس رپورٹنگ سنٹر کا افتتاح ضلع کرم میں کردیا گیا۔ قبائلی خواتین نے بھی اس سنٹر کے قیام پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے اس کے ساتھ ان کو اور حقوق بھی دیئے جائیں گے۔ افتتاح ڈی پی او محمد قریش نے کیا، افتتاح کے موقع پر ضلع کرم کے عمائدین سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
اس موقع پر ڈی پی او محمد قریش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی اضلاع میں پولیس فورس کو فعال بنانے کے بعد قبائلی خواتین کے مسائل اور محرومیوں کے ازالہ کے لئے پہلی مرتبہ خواتین پولیس رپورٹنگ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سنٹر کے ذریعے قبائلی خواتین کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاراچنار وویمن پولیس رپورٹنگ سنٹر قبائلی تاریخ کا پہلا سنٹر ہے اس کے بعد صدہ اور سنٹرل کرم میں بھی وویمن پولیس رپورٹنگ سنٹر قائم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس سنٹرمیں 14 خواتین اہلکار کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ ضلع کرم کی سطح پر 50 لیڈی کانسٹیبل بھرتی کی جائیں گی۔
قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس اقدام کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس سنٹر کے قیام سے اب خواتین بھی بلاججھک اپنی شکایات درج کراسکیں گی اور ان کو حقوق ملنے کی بھی امید پیدا ہوگئی ہے۔
ضلع کرم کے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والی تارا اورکزئی نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ اس سے خواتین کو بہت فوائد حاصل ہوگئے ہیں کہ اب وہ خودمختار ہوکر اپنے مسائل پولیس وویمن سنٹرمیں جاکر بیان کرسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا ‘ اب ایک خاتون اپنا مسئلہ اس لیے صحیح طریقے سے بیان کرپائے گی کہ وہ اپنی بات خود ہی کریں گی کوئی جاکر اس کی رپورٹ نہیں لکھوائے گا کیونکہ دوسرا بندہ اس کی صحیح رپورٹ درج نہیں کراسکتا تھا اور اس کے علاوہ وہاں پرساری خواتین ہونگی تو ایسے میں خواتین بغیر کسی ہچکچاہٹ اور خوف کے وہاں جاسکیں گی’
تارا اورکزئی نے بتایا کہ اس سے اب خواتین اپنے حق کے لیے خود ہی آواز اٹھاسکتی ہیں اوراگر خدانخواستہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی ظلم زیادتی کرے تو وہ رپورٹ کرسکتی ہیں جبکہ وہ خود بھی اس سنٹر کے قیام سے بہت خوش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ قبائلی لڑکیوں کے لیے یہ نوکری کا بھی ایک ذریعہ ہے کہ زیادہ ترلڑکیاں پولیس فورس میں آنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سنٹر ایک اچھا اغاز ہے اس کے ساتھ خواتین کو عدالت جانے کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے اور اس طرح اب انکو باقی کے حقوق ملنا بھی شروع ہوجائیں گے۔
کرم سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نائلہ الطاف نے اس حوالے سے کہا کہ یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد ان علاقوں کے لوگوں کو عدالتوں تک رسائی دی گئی، خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کیا گیا اور بھی بہت ساری اصلاحات کی گئی ہے لیکن وہاں کے رسم ورواج اور ثقافت کی وجہ سے خواتین اس سے مستفید نہیں ہورہی تھی کیونکہ خواتین اپنے مسائل لے کر مردوں کے پاس نہیں آسکتی تو اب چونکہ سنٹر بن گیا ہے جہاں سٹاف بھی خواتین کا ہے تو خواتین کے مسائل بھی حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
نائلہ الطاف نے کہا’ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی گھر میں مرد نہیں ہوتا تو اس گھر کی عورت کو خود ہی سارے کام کرنا پڑتے ہیں تو ان کے لیے بہت مشکل ہوتا تھا جبکہ قبائلی اضلاع میں خواتین مردوں کو اپنے مسائل بھی صحیح نہیں بتا سکتی، بعض خواتین بھی مرد حضرات سے بات کرنے سے کتراتی ہیں تو اس سنٹر سے ان خواتین کو ریلیف ملے گا’
ضلع کرم کی رہائشی ماہ رخ جبین جو پیشے کے لحاظ سے صحافی ہے نے ٹی این این کو بتایا کہ اس سے خواتین کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے کہ اب وہ اپنی فریاد بروقت پولیس اور باقی متعلقہ حکام تک پہنچا سکیں گی۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے خواتین پرظلم وزیادتی میں بھی کمی آجائے گی۔ انہوں نے کہا اس طرح کے سنٹر قبائلی اضلاع کے دوسرے ضلعوں میں بھی بننے چاہیئے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ قبائلی خواتین کو وہ سارے حقوق دینے چاہیئے جو ملک کی باقی خواتین کو میسرہیں۔
ڈی پی او محمد قریش کے مطابق وویمن سنٹرپولیس پارا چنار میں ہرشفٹ میں تین خاتون پولیس اہلکار ڈیوٹی پرہونگی جبکہ سنٹرمیں واش رومز، پینے کے پانی، بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور باقی سہولیات دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا وویمن پولیس سنٹرصدہ میں بنایا جائے گا۔ ضلع کرم کے عوام نے بھی وویمن پولیس سنٹر کے قیام پرخوشی کا اظہار کیا ہے۔
ڈی پی او کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے انضمام اور لیویز اور خاصہ دار فورس کے پولیس میں انضمام کے بعد بھی 52 فیصد آبادی کو اس کے فوائد نہیں مل رہے تھے تو اس وجہ سے اس وویمن پولیس سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ان کو بھی انضمام کے ثمرات مل سکیں۔
سنٹرمیں موجود خواتین پولیس اہلکاروں کو باقاعدہ تربیت دی گئی ہے اور ان کو ہدایات دی گئی ہے کہ متاثرہ خواتین کے موبائل نمبرز وغیرہ کو خفیہ رکھا جائے، حاملہ، دودھ پلانے والی ماوں اور عمر رسیدہ خواتین کا خاص خیال رکھا جائے، ان کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کیا جائے، معاملےکی تحقیقات کے لیے متاثرہ خاتون کو باربار بلانے کی بجائے خود اس کی سہولت کی جگہ جایا جائے اور علیحدگی میں متاثرہ خاتون کی بات کو سنا جائے۔