آج بھرتی کل فارغ، نادرا کے 115 قبائلی ملازمین سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے
افتخار خان
نادرا نے ضم شدہ اضلاع سے حال ہی میں بھرتی کئے گئے اپنے 115 ملازمین کو صرف ایک دن کی ڈیوٹی کے بعد نوکری سے نکال دیا اور کہا کہ ایسا قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پارلیمنٹیرینز کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ فیصلے سے نہ صرف برطرف ملازمین بلکہ قبائلی اضلاع کے دوسرے نوجوانوں میں بھی مایوسی پھیل گئی ہے۔
قبائلی اضلاع میں ورلڈ بینک کے تعاون سے چلنے والے ٹمپریری ڈسپلیسڈ پرسنز ایمرجنسی ریکوری پراجیکٹ (ٹی ڈی پی- ای آر پی) میں یہ بھرتیاں پچھلے سال کے آخری مہینے میں ہوئیں، تمام ملازمین نے 22 دسمبر سے نادرا کے دفاتر میں باقاعدہ جوائننگ دی جبکہ 27 دسمبر کو انہیں ٹریننگ کے لئے بلایا گیا تھا لیکن حیران کن طور پر اسی دن نادرا کے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد سے ٹیلی فون کال کے ذریعے اطلاع آئی کہ ٹریننگ فی الحال موخر کر دی گئی ہے اور جلد دوسری تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔
لیکن متاثرین کا کہنا ہے کہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی انہیں نہ تو ٹریننگ کے لئے بلایا گیا اور نہ دفتر میں ڈیوٹی کے لئے تو ان کو فکر لاحق ہوگئی کیونکہ مختلف حلقوں میں پہلے سے چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ بھرتیاں کینسل کرائی گئی ہیں اور جب انہوں نے ہیڈکوارٹر سے معلومات کیں تو ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔
انہیں بتایا گیا کہ قبائلی اضلاع سے منتخب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران نے ان بھرتیوں کی شفافیت پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور وزارت داخلہ کے ذریعے یہ تمام بھرتیاں کینسل کرادی ہیں۔
متاثرہ افراد کا الزام ہے کہ منتخب نمائندے ان سیٹس پر اپنے بندے بھرتی کرانا چاہتے تھے اور جب ناکام ہوئے تو یہ راستہ اپنا لیا۔
اس حوالے سے چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے سیفران سینیٹر تاج محمد کی جانب سے نادرا کے چئیرمین کے نام ایک خط لکھا گیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے نمائندوں کو ٹی ڈی پی- ای آر پی پراجیکٹ میں بھرتیوں کے حوالے سے کئی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ان میں شفافیت کا خیال نہیں رکھا گیا اور تحریری امتحان لئے بغیر بھرتیاں کرائی گئی ہیں جس پر ان نمائندگان کو بھی اعتراضات ہیں کیونکہ ان میں کئی غیرمقامی افراد بھی بھرتی کئے گئے ہیں۔
اس خط، جس پر درجن بھر دیگر قبائلی پارلیمنٹیرینز کے بھی دستخط ہیں، میں چئیرمین نادرا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ بھرتیاں فوری طور پر منسوخ کرکے ان پوسٹوں کو دوبارہ مشتہر کیا جائے اور باقاعدہ تحریری امتحان کے بعد بھرتیاں کی جائیں۔
ٹی این این سے بات چیت کے دوران قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کی تنظیم ٹرائبل یوتھ فورم کے چئیرمین ریحان زیب کا کہنا تھا کہ نوکریوں سے نکالے گئے افراد نے جب گزشتہ دن نادرا ہیڈکوارٹر اسلام آباد کے سامنے احتجاج شروع کیا تو پراجیکٹ ڈایریکٹر نے انہیں صاف الفاظ میں بتایا کہ یہ بھرتیاں اسی خط کی بنا پر منسوخ کی گئی ہیں اور انہیں چند دنوں میں باقاعدہ نوکریوں سے نکالے جانے کے لیٹرز جاری کر دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا بھرتی ہونے والے کئی نوجوانوں نے مختلف اداروں میں اپنی نوکریاں چھوڑی ہیں اور اب ایسے طریقے سے ان کو نکالنے سے قبائلی نوجوانوں میں پہلے سے موجود مایوسی میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سٹیزن پورٹل پر بھی ان بھرتیوں کے خلاف ایک شکایت درج کی گئی تھی جس پر نادرا کا دیا گیا جواب اب بھی موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھرتیوں کے عمل کا دوبارہ جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں غیر شفافیت کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
ریحان زیب نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب نادرا کو بھرتیوں میں شفافیت پر پورا اعتماد تھا تو پارلیمنٹیرینز کے ایک خط کے سامنے کیوں سر تسلیم خم کیا اور تمام ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا؟
لیکن دوسری جانب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بھرتیوں کو منسوخ کرنے کے معاملے میں قبائلی پارلیمانی عہدیداروں نے وزیر داخلہ کو اعتماد میں لیا تھا اور انہیں کی مدد سے چئیرمین نادرا سے یہ بھرتیاں منسوخ کرائی گئی ہیں۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے حیات احمد بھی ان 115 نوجوانوں میں شامل ہیں جنہیں نادرا نے ایک دن کی نوکری کے بعد نکال دیا ہے۔ حیات احمد نے ایم فل کیا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ انتہائی مشکل انٹرویو کے بعد جب انہیں سپروائزر کی پوسٹ پر منتخب ہونے کی خوشخبری دی گئی تو اس وقت وہ اسلام اباد میں ایک نجی ادارے کے ساتھ منسلک تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے حیات خان کا کہنا تھا کہ سلیکشن کال آنے کے بعد انہیں اگلے دن آفس رپورٹ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے اپنی پرانی نوکری سے باقاعدہ استعفیٰ دینے کے لئے کچھ مہلت کا مطالبہ کیا لیکن جواب میں انہیں کہا گیا کہ وہاں سے ایمرجنسی کی بنیاد پر استعفیٰ دیکر یہاں جوائن کریں۔
حیات احمد پوچھتے ہیں اب وہ کس سے اپنے لئے انصاف مانگیں کیونکہ وہ نہ تو یہاں کے رہے اور نہ وہاں کے اور ان کا کرئیر سیاست کے نذر ہوچکا ہے۔
قبائلی اضلاع میں نادرا کا یہ پراجیکٹ حالیہ مردم شماری میں یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد شروع کیا گیا ہے کہ ان اضلاع میں زیادہ تر عوام اور باالخصوص خواتین کے شناختی کارڈ نہیں بنے۔ ان اضلاع میں نادرا کے "سب آفسز” (ذیلی دفاتر) کے قیام کی ایک وجہ وہاں پر نادرا کے دفتروں کی کمی بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق ٹی ڈی پی- ای آر پی پراجیکٹ میں مجموعی طور پر 400 سے زائد افراد کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور پہلے مرحلے میں 115 افراد کو بھرتی کیا گیا تھا جس کے لئے مجموعی طور پر 12500 درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں جن میں 450 کو انٹرویو کے لئے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔
معطل شدہ ملازمین میں 100 تک ڈیٹا انٹری آپریٹرز، 14 سپروائزرز اور ایک سائٹ انچارج شامل تھے، باجوڑ کے علاقے ماموند کے رہائشی بشیر خان بھی اس پراجیکٹ میں ڈیٹا انٹری آپریٹر کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بشیر کا کہنا تھا کہ انٹرویو کا عمل مسلسل گیارہ دنوں تک جاری اور درخواست گزار روزانہ صبح آٹھ بجے آتے اور رات دس بجے تک اپنی باری کا انتظار کرتے، انٹرویو میں ان کی باری چھٹے روز رات نو بجے کے بعد آئی اور جب سلیکشن ہو گئی تو ان کے گھر تو جیسے خوشیوں کا سماں بندھ گیا اور لوگ مبارک باد دینے کے لئے آنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات تو تصدیق شدہ ہے کہ زیادہ تر لوگ مقامی ہی بھرتی ہوئے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان میں وہ لوگ شامل نہیں تھے جن کی لسٹ قبائلی اضلاع کے منتخب نمائندوں نے دی تھی اس لئے اس میں غیر مقامی افراد کی بھرتی کا شوشہ چھوڑ کر مستحق لوگوں کو نکالا گیا۔
بشیر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خود اپنے ایک جاننے والے کے موبائل فون میں مقامی سینیٹر کا پیغام دیکھا ہے جس میں اس بندے کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھرتیاں منسوخ کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور اب بہت جلد ان میں سے ایک پوسٹ پر نوکری مل جائے گی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ قبائلی پارلیمنٹیرینز کو شفافیت سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ان دوسرے پراجیکٹس میں بھی دخل اندازی کرتے جن میں کھلم کھلا غیرمقامی افراد بھرتی کئے گئے ہیں اور روزانہ جن کے خلاف احتجاج بھی ہوتے ہیں لیکن نہیں کیونکہ ان کو صرف اپنے بندوں کو بھرتی کرانے سے مطلب ہے۔
بشیر اور حیات کا کہنا ہے کہ ان پوسٹس کی دوبارہ تشہیر کے ساتھ ہی وہ لوگ پشاور ہائی کورٹ میں اس کے خلاف کیس دائر کریں گے۔