فیچرز اور انٹرویوقبائلی اضلاع

قبائلی لڑکیوں پر نجی تعلیمی اداروں کے دروازے بند کیوں؟

سٹیزن جرنلسٹ ممانڑہ آفریدی

ضلع خیبر میں بہت ساری لڑکیاں مخلوط تعلیمی ماحول والے (کوایجوکیشن) نجی سکولوں میں داخلہ تو لے لیتی ہیں لیکن وہ جیسے ہی بڑی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کے والدین انہیں لڑکیوں کے سرکاری سکول میں منتقل کر دیتے ہیں اور یا ان کو گھر پر بٹھا دیتے ہیں۔

”میری عمر 9 سال تھی اور میں لنڈی کوتل کے ایک پرائیویٹ سکول میں کو ایجوکیشن میں تیسری جماعت کی طالبہ تھی جب میرے والدین نے فیصلہ کیا کہ مجھے لڑکیوں کے لیے بنائے گئے سرکاری سکول میں منتقل کردیں” ان خیالات کا اظہار ضلع خیبرسے تعلق رکھنے والی گل رخ نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔

گل رخ نے بتایا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم کا معیار اچھا ہے، لیکن جیسے ہی لڑکیاں بڑی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کے والدین ان کو پرائیویٹ سے سرکاری اداروں میں منتقل کردیتے ہیں اور یا ان کو گھر پربٹھا دیتے ہیں اور اس طرح سماجی اور ثقافتی رکاوٹوں کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔

محکمہ تعلیم خیبر کے مطابق اس وقت ضلع خیبر میں نجی پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کا اندراج 3،826 (3.97)فیصد اور لڑکوں کا 23،698 (22.67)فیصد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں میں ہر لڑکی کے لئے داخلہ لینا آسان نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکاری پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کا اندراج 41،026 (42.61) فیصد اور لڑکوں کا40،578  (38.82) فیصد ہے۔

گل رخ کے والد نے ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو پرائیویٹ سے سرکاری سکول منتقل کیا کیونکہ قبائلی روایات کے مطابق یہ مناسب نہیں سمجھا جاتا کہ بڑی لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں۔

گل رخ کی ماں کے مطابق معاشی مسائل بھی بھی والدین کو اس بات سے روکتی ہیں کہ وہ بچوں کو معیاری تعلیم دلوائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے سات بچے ہیں اور وہ نہیں کرسکتے کہ سب بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرائیں۔

دوسری طرف ضلع خیبرسے ہی تعلق رکھنے والی جمائہ آفریدی نے ٹی این این کو بتایا کہ انہوں نے ایف ایس سی تک کو ایجوکیشن میں پڑھا ہے اور ان کو اس سلسلے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی کیونکہ ان کے والدین نے ان کو بہت سپورٹ کیا ہے۔

جمائمہ آفریدی نے مزید بتایا کہ وہ جس علاقے سے تعلق رکھتی ہے وہاں والدین اپنی بچیوں کو سرکاری سکول بھی جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں والدین بچیوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دیتے اور وہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد اپنی بچیوں کی شادیاں کرادیں۔ انہوں نے بھی سابقہ قبائلی اضلاع میں ثقافتی بندھنوں اور غربت کو ان مسائل کی ذمہ داری قرار دیا۔

جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ پرائمری سے لے کر ایف ایس سی تک وقتا فوقتا ان کی کلاس میں لڑکیوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اور آخر میں بہت لڑکیوں نے ایف ایس سی پاس کیا اور باقیوں نے سکول چھوڑ دیا۔

محکمہ تعلیم خیبر کے مطابق ابتدائی سطح کے اندراج کے برعکس، خیبرضلع کے سرکاری مڈل سکولوں میں لڑکیوں کا داخلہ 2،492 (4.63) فیصد اور لڑکوں کا 8،858 (15.14) فیصد ہے۔ نجی سکولوں میں اسی سطح کی لڑکیوں کا داخلہ (0.06) اور لڑکوں کا (17.86) فیصد ہے جو ابتدائی سے درمیانے درجے تک داخلے میں بڑے پیمانے پر کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک پرائیویٹ سکول کے پرنسپل ولی خان شنواری نے ٹی این این کو بتایا کہ لڑکیوں کے لیے پرائیویٹ سکول بنانے کا رجحان بہت کم ہے کیونکہ لوگ اپنی بچیوں کو ان سکولوں میں نہیں بھیجتے۔

گل رخ نے بتایا کہ جب اس کو سرکاری سکول میں منتقل کیا گیا تو اس وقت اس کے بھائی کو پرائیویٹ سکول میں داخل کیا گیا جوکہ اچھے نتائج لانے کے لیے مشہور سکول ہے۔ احمد فیاض جوکہ گل رخ کا بھائی ہے، اس نے بتایا کہ امتحان میں اچھے مارکس لانے کے لیے اس کو ڈبل ٹیوشن فیس والے پرائیویٹ سکول میں منتقل کیا گیا۔ گل رخ کے کنبے کے مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکے کس طرح معیاری تعلیم میں لڑکیوں سے زیادہ ترجیح حاصل کرتے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے اعدادو شمار کے مطابق ضلع خیبر میں، گریڈ 1 سے 6 تک 1،052 لڑکے اور 150 لڑکیاں گورنمنٹ سے نجی سکولوں میں کو جاتے ہیں لیکن گریڈ 6 سے 10 تک سے 263 لڑکے سرکاری سے نجی سکولوں میں چلے جاتے ہیں اور گریڈ 7 سے 10 تک کوئی بھی لڑکی نجی سکول منتقل نہیں ہوتی۔ ماہر تعلیم ڈاکٹر نصیر احمد نے ٹی این این کو بتایا کہ تعلیم تعلیم دینے کے بجائے تعلیم ماہرین کے لئے بڑی کمائی کا ذریعہ بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک قبائلی ثقافت میں، خاندان کی دیکھ بھال کا بوجھ مرد پر پڑتا ہے، لہذا لڑکوں کو معاشرے کا کامیاب شہری بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری بہت کم ہے اور انہیں تعلیم اور صحت جیسے صرف چند شعبوں میں شمولیت کی اجازت ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر فرد کو تعلیم دلوائے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی خواتین کو تعلیم دیئے بغیر حقیقی ترقی نہیں کرسکتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button