سیاست

ووٹ کا استعمال ضروری تاہم اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش ہرگز نہ کریں!

خیرالسلام

رواں مہینے کی انیس تاریخ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں اب گنتی کی چند ساعتیں ہی رہ گئیں ہیں، سیاسی بساط کے ماہر کھلاڑی اپنی شاطرانہ چالیں کھیلنے کے لیے ہما وقت تیار بیٹھے ہیں کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ اپنی چرب زبانی کا استعمال کر کے عوام کی زیادہ سے زیادہ ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوں۔ انتخابی مہم کے دوران مخالف پارٹی کے امیدوار وں پر کیچڑ اچھالنے اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے والے افراد اس بار بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے کے لیے تیار نہیں۔

دوسری جانب کمر توڑ مہنگائی، بے روز گاری اور ڈانواں ڈول معیشت کے پیشِ نظر حکمران جماعت کے حمایتی خاصے کم جبکہ دیگر پارٹیوں کی، جن میں جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور نون لیگ شامل ہیں، حمایت میں بطاہر اضافہ ہوا ہے، ان کے ارکان تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اللہ کرے کہ اس بار اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا یہ مرحلہ بخیر و خوبی سر انجام پائے اور بلدیاتی نمائندے عوام کی دہلیز پر انہیں انصاف دلانے میں کامیاب اور سرخرو ہوں۔

نچلی سطح پر عوامی مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کی انجام دہی کے لیے یہ نظام ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جہاں منتخب امیدوار عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آ کر ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ماضی میں یہی اختیارات بیوروکریسی کو حاصل تھے، غریب اور بے بس عوام کو کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تاہم اب نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے بلدیاتی ادارے چھوٹی سطح پر یہ نظام چلاتے ہیں اور عام آ دمی کا مسئلہ ان کی دہلیز پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

1970 اور 1980 کی دہائیوں میں نافذ بلدیاتی نظام کے ثمرات کو دیکھتے ہوئے سن 2000ء میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا ایک علیحدہ اور منفرد نظام متعارف کرایا گیا۔ اس بار ڈسٹرکٹ ناظمین کو زیادہ بااختیار بنا کر انہیں بیوروکریسی کے سر پر بٹھا دیا گیا۔ ناظمین کو ضلع اور تحصیل میں نمائندگی، دفاتر، سیکرٹری، وائرلیس سیٹ اور جھنڈے والی گاڑیاں دے کر انہیں ضلع کا بے تاج بادشاہ بنایا گیا۔ ان کے ماتحت کسان، نوجوانان، اقلیتی اور خواتین کونسلرز منتخب ہوئے۔

سن 2000ء کے بلدیاتی نظام نے ملک بھر کے کئی اضلاع میں عوامی مفاد کے بہترین منصوبے مکمل کیے اور اسی نظام کی بدولت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے بے شمار نئے چہرے متعارف کروائے گئے۔ حکمران جماعت کی سابقہ صوبائی حکومت میں ویلج کونسل متعارف کرائی گئی لیکن اس نظام کی خامی یہ تھی کہ ناظم کا ضلع اور تحصیل سے رابطہ ختم ہو گیا اور یوں ان کی حیثیت ثانوی سی رہ گئی۔ مزید برآں ضلع اور تحصیل ممبرز کو فنڈز کے علاؤہ نہ کوئی دفتر دیا نہ ہی سیکرٹری اور نہ مکمل اختیارات!

متعلقہ خبریں:

بلدیاتی انتخابات: 2 ہزار سے زائد امیدوار بلامقابلہ منتخب

بلدیاتی انتخابات: میئر و کونسلرز کے اختیارات اور ذمہ داریاں

انتخابی مہم میں قتل کے ارتکاب پر سزائے موت پانے والا سیاسی ورکر

فاٹا قومی جرگہ نے بلدیاتی انتخابات کے خلاف مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا

بلدیاتی انتخابات کے دوران اس مرتبہ ایک نیا تجربا کیا جا رہا ہے جس میں ضلعی حکومت کے برعکس تحصیل کی سطح پر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بڑے اور میٹرو پولیٹن شہرو میں میئر کو تمام اختیارات حاصل ہوں گے تاہم ماضی کی طرح تحصیلیں اب ان کے ماتحت ہونے کے برعکس مکمل طور پر بااختیار ہوں گی۔ خان صاحب کے تجربات کی پٹاری سے نکلنے والا نیا نظام کیا گل کھلائے گا یہ تو آ نے والا وقت ہی بہتر بتا سکتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ موجودہ نظام کے مقابلے میں ماضی کا ضلعی نظام ایک بہتر نظام تھا جسے چند ایک ترامیم کرا کے مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا کیونکہ اس نظام میں ناظم کی براہ راست نمائندگی لازمی تھی تاکہ ان کا دیگر ناظمین کے ساتھ ساتھ ضلع ناظم کے ساتھ بھی براہ راست رابطہ رہے۔

نظام کوئی بھی ہو اسے بہرحال منتخب نمائندے ہی چلاتے ہیں۔ اب عوام نے بالغ رائے دہی کے ذریعے اپنے لیے میئر، تحصیل اور ویلج کونسل ناظم اور کونسلرز کا انتخاب کرنا ہے۔ سیاسی مداری مختلف طریقوں سے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں میں مگن، کوئی پارٹی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہا ہے تو کسی نے مذہب کو آڑ بنا کر سیٹ حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے۔

آزاد حیثیت سے بھی امیدوار میدان میں ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران ایک عجیب اور دلکش سماں بندھا ہوا ہے۔ امیدواروں کی ایک فوج ظفر موج ہر وقت رواں دواں ہے۔ لوگوں پر جرگے ہو رہے ہیں تاکہ الیکشن مہم کے لیے راہ ہموار ہو۔ ساتھ ہی ہر کسی کی شادی، فوتگی اور دیگر تقریبات میں بھرپور شرکت کر کے انہیں قربت کا احساس دلایا جا رہا ہے۔ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے امیدوار کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے بلکہ راہ چلتے مسافروں کے ساتھ بھی بغل گیر ہو رہے ہیں جیسے ان سے برسوں کی جان پہچان ہو۔ جبکہ جمعہ اور عید کے دن مسجد کی راہ تکنے والے افراد کو باقاعدہ حاجی صاحب کہہ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

بلاشبہ ووٹ ایک مقدس امانت اور اہم فریضہ ہے جس کا درست استعمال کر کے ہم ملک و قوم کی تقدیر بدلنے میں ایک اہم اور افعال کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے وقت اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ امیدوار کا ماضی، ذاتی کردار اور سب سے بڑھ کر عوامی مسائل کے حل میں اس کی دلچسپی کس نوعیت کی ہے۔ اگر کسی امیدوار کا ماضی داغدار ہو، اسے عوامی مسائل کے حل سے زیادہ اپنی جیب بھرنے کی فکر لاحق ہو تو ایسے افراد کو ووٹ دینا قانوناً اور شرعاً دونوں لحاظ سے درست نہیں۔ آخر میں ایک گزارش کہ بلدیاتی انتخابات میں ووٹ کا استعمال ضرور کریں تاہم ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button