لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے حکومت سے امدادی پیکیج کی فوری فراہمی کا مطالبہ کر دیا
رفاقت اللہ رزڑوال
"میرے حالات ایسے ہے کہ میں اپنے بچوں کو پال نہیں سکتی، میرے پاس اتنی طاقت نہیں کہ انہیں دو وقت کا کھانا فراہم کر سکوں۔ اب مجھے اپنے کمسن بچوں کو کھیتوں پر محنت مزدوری کرنے پر مجبور کرنا پڑتا ہے تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ کاش میرا شوہر آج ہمارے ساتھ ہوتا، تو بچوں کو اچھی تعلیم اور رہائش ملتی”۔
یہ کہنا ہے ضلع چارسدہ کے علاقے سرڈھیری کی رہائشی خاتون زاہدہ بی بی کا، جن کا شوہر گزشتہ آٹھ سال سے لاپتہ ہے۔ مسنگ پرسنز کمیشن اور عدالتی کارروائیوں کے باوجود وہ ابھی تک بازیاب نہیں ہو سکا۔
زاہدہ بی بی کے پانچ بچے ہیں اور وہ ایک خستہ حال گھر میں رہتی ہیں، جہاں ان کا معاش کا کوئی منظم وسیلہ نہیں ہے۔ وہ ایک چھوٹی سی کریانہ اسٹور چلاتی ہیں، جس سے محلے کے بچے سودا سلف خریدتے ہیں اور یہ ان کی معاش کا واحد ذریعہ ہے۔
پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو 50 لاکھ روپے امداد فراہم کی جائے گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے اس کا اعلان کیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے لاپتہ افراد کے ورثاء گزشتہ آٹھ سالوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے یا عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔
زاہدہ بی بی نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کا شوہر 2016 میں اس وقت غائب ہوا جب تھانہ سرڈھیری پولیس نے انہیں ٹیلیفون کرکے بتایا کہ ان کے دو بھائی پولیس کے پاس ہیں اور ضمانت کرائیں۔ جب زاہدہ بی بی کا شوہر اپنے سسر کے ساتھ تھانے گیا تو اس کے بعد نہ تو شوہر واپس آیا اور نہ ہی دیور اور سسر۔ تب سے ان کے بچے یتیم ہو گئے ہیں۔
زاہدہ بی بی کی آنکھوں سے آنسو چھلک رہے ہیں، وہ کہتی ہیں، "میرے بچے دوسرے بچوں کے کپڑے، جوتے اور کھلونے دیکھ کر مجھ سے مانگتے ہیں، لیکن میں انہیں دو وقت کا کھانا بھی نہیں دے سکتی۔ کیسے میں ان کی خواہشات پوری کروں؟”۔
وہ مزید کہتی ہیں، "میرا 11 سال کا بیٹا کھیتوں میں کام کرتا ہے اور میں نے گھر میں بچوں کی ٹافیوں کی دکان کھول رکھی ہے جس سے 100، 150 روپے کمائی ہوتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں گزارا مشکل ہو رہا ہے۔”
زاہدہ بی بی کا کہنا ہے، "بظاہر میں بیوہ نہیں ہوں، لیکن میری حالت بیواؤں سے بھی بدتر ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے بیواؤں کے لیے کوئی ریلیف پیکیج ہو تو ہم بھی اُس سے محروم ہیں”۔
انہوں نے بتایا کہ کئی بار یتیم خانوں میں بھی درخواست دی مگر وہاں سے کہا گیا کہ بچوں کو یتیم خانوں میں نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ یتیم نہیں ہیں۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ نے میڈیا کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے خفیہ اور ریاستی اداروں کی مشاورت کے بعد لاپتہ افراد کی رپورٹس کی توثیق کی ہے۔ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ 13 سالوں کے دوران 4 ہزار 514 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جبکہ 2011 سے 2022 تک 277 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ کابینہ نے گزشتہ پانچ سالوں سے لاپتہ افراد کے خاندانوں کو 50 لاکھ روپے امداد دینے کی منظوری دی ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہے، اسی سوچ کی بنیاد پر یہ امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
لاپتہ افراد کے ورثاء نے حکومت کے امدادی اعلان کا خیرمقدم کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوراً امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے مشکل معاشی حالات پر قابو پا سکیں۔