خیبر پختونخواقومی

آٹا بحران میں افسران اور سیاستدانوں کے ملوث ہونے کا انکشاف

وزیراعظم عمران خان کو  ملک میں جاری آٹا بحران سے متعلق رپورٹ بھجوادی گئی جس کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا جس میں افسران اور بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں

وزیراعظم عمران خان کو  ملک میں جاری آٹا بحران سے متعلق رپورٹ بھجوادی گئی جس کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا جس میں افسران اور بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے آٹے کے بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی اور وزراء کو بحران کی وجوہات جاننے کا ٹاسک سونپا تھا۔

جیو ٹی وی کے ایک خبر کے مطابق رپورٹ میں آٹا بحران پیدا کرنے کے ذمہ دار بیوروکریٹس اور سیاسی شخصیات کی نشاندہی کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2 ماہ قبل مارکیٹ میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی تاہم دسمبر 2019 میں گندم مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہو گئی، گزشتہ ماہ لاہورکی فلار ملز کا کوٹہ 50 سے کم کرکے 45 بوری کیا گیا اور راولپنڈی کی فلار ملز کا کوٹہ 25 سے بڑھا کر 30 کیا گیا۔ یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ محکمہ خوراک پر سیاسی دباؤ تھا اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے آٹا بحران پیدا ہوا، نومبر 2018  تک 1550 روپے فی من فروخت ہونے والی گندم 1950 روپے تک منصوبہ بندی سے پہنچائی گئی۔

ذرائع  کا کہنا ہے کہ چکی مل مالکان کوصاف گندم 2100 روپے فی من ملنے پر چکی مالکان نے بھی آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔

وزیراعظم عمران خان کو بھجوائی گئی رپورٹ پر ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کوآٹا بحران پر بھجوائی گئی رپورٹ کا علم نہیں لہٰذا رپورٹ سامنے آنے پر اس کے بارے میں مؤقف دیں گے۔

خیال رہے کہ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے آٹے کے بحران کا ذمہ دار تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کو قرار دیا ہے۔

مریم اورنگزیب نے الزام عائد کیا کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار وزیراعظم عمران خان کے حکم پر آٹے کی قیمتیں کنٹرول کر رہے ہیں۔

چند روز قبل ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جس سے سب سے زیادہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبے متاثر ہوئیں ہیں٫

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ درآمد شدہ گندم آتے آتے مقامی سطح پر گندم کی فصل تیار ہوجائے گی اور پھر گندم کی زیادتی کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

 

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button