قومی

زینب الرٹ بل متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور

 

قومی اسمبلی نے قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی کے نام سے پیش کئے گئے زینب الرٹ بل کو متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 8 اکتوبر 2019 کو زینب الرٹ بل منظور کیا تھا۔

آج (بروز جمعہ 10 جنوری 2020) کو سپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے زینب الرٹ بل ایوان میں پیش کیا۔ سپیکر اسد قیصر نے زینب الرٹ بل پر قومی اسمبلی ووٹنگ کرائی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

اس بل کے ذریعے زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام وجود میں آئے گا جس کے ذریعے سے لاپتہ یا گم ہونے والے بچوں کے بارے میں رپورٹ کیا جا سکے گا۔ شیریں مزاری نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ زینب الرٹ بل کی منظوری پر اسد عمر اور ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو نے رمضان میں بھی سب کمیٹی کے اجلاس منعقد کیے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان میں مجرمان کو سر عام لٹکانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اگر سر عام لٹکانے کی سزا دینی ہے تو قوانین میں ترمیم کر لیں۔

ڈاکٹر مہرین بھٹو نے کہا کہ آج زیادتی کا شکار ہونے والی زینب کی دوسری برسی ہے اور آج ہی زینب الرٹ بل منظور کیا گیا ہے۔

زینب الرٹ بل کیا ہے؟

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے زینب الرٹ بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پر ہو گا، وزیراعظم کی طرف سے گمشدہ اور لاپتہ بچوں کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا، ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جائیں گے۔ بل کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل زینب الرٹ، رسپانس و ریکوری بچوں کے حوالے سے مانیٹرنگ کا کام کرے گا اور ہیلپ لائن 1099 کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔

منظور بل کے مطابق زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل کی نگرانی وفاقی چائلڈ پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ کرے گا، کسی بھی بچے کے لاپتہ ہونے کی صورت میں پی ٹی اے اتھارٹی فون پر بچے کے بارے میں پیغامات بھیجے گی اور بچہ گم ہونے کی صورت میں دو گھنٹے کے اندر مقدمہ درج ہو گا۔

بل کے متن کے مطابق تین ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کر کے ملزم کو سزا دی جائے گی اور مقدمے کے اندراج میں تاخیر کرنے والے کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ قومی اسمبلی سے منظور بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچے کے اغوا کار کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button