لائف سٹائل

پی او آر کارڈز بند ہونے پر افغان مہاجرین در بدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے

 

رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا میں عرصہ دراز سے قانونی طور پر رہائش پذیر افغان شہریوں کے بیشتر خاندانوں کے سرابراہان کے ‘پروف آف رجسٹریشن کارڈز’ کی رینیول تاخیر کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔
قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو پی او آر کارڈ کا اجراء نہ ہونے کی وجہ سے پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ انکو ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ گرفتاری کی صورت میں گھر کا سربراہ پاکستان سے بے دخل کیا جائے گا جبکہ انکا خاندان یہی پر رہے گا۔ جبکہ سربراہ کے کارڈ کی عدم موجودگی میں یہی خاندان مہاجرین کے فلاحی ادارے یونائٹد نیشن ہائی کمشنر فار ریفیوجیز (یو این ایچ سی آر) کے ماہانہ مراعات سے بھی محروم ہیں۔

ضلع پشاور کے علاقے خزانہ میں واقع افغان مہاجرین کیمپ خراسان میں رہائش پذیر 70 سالہ یاد رسول نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ پاکستان میں گزشتہ 35 سالوں سے مقیم ہے اور باقاعدہ طور پر انہیں ہر تین سال بعد کارڈز ایشو کئے جاتے تھے مگر 2022 کے بعد ان کے کارڈ بغیر کسی وجہ کے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

یاد رسول نے اپنے خاندان کے 26 عدد نئے کارڈز ٹی این این کو دکھائے اور کہا کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کو نئے کارڈز جاری کر دئے گئے ہیں۔ کہتے ہیں "اب آپ بتائیں کہ اگر مجھے پکڑا گیا تو میں اس بڑھاپے کی عمر میں افغانستان میں اکیلا کیا کروں گا، میرےخاندان کے باقی افراد تو یہی رہیں گے”۔

یہ بھی پڑھیں۔ افغانوں کی واپسی، پشاور کے قدیم شنواری مارکیٹ کی رونقیں ماند پرگئی

طورخم کے راستے مزید 577 خاندان افغانستان واپس چلے گئے

انہوں نے بتایا کہ جب انکے پاس ویلیڈ کارڈ ہوتے تھے تو خاندان کے سربراہ کے کارڈ پر یو این ایچ سی آر کی جانب سے ہر ماہ راشن ملتا تھا مگر کارڈ کا اجراء نہ ہونے کے بعد وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ہے۔ یاد رسول کہتے ہیں "اگر سابق ریکارڈ کے مطابق دیکھا جائے تو میں اور میرا خاندان یہاں پر قانونی طور مقیم ہے لیکن اب میرے پورے خاندان کے علاوہ مجھے کارڈ فراہم نہ کرنا زیادتی ہے”۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے 36 اضلاع میں سے 27 اضلاع میں 18 ہزار 650 افراد غیر قانونی طور پر مقیم ہے۔
یاد رسول کے ساتھ بیٹھی انکی 65 سالہ بیوی شیرینہ کہتی ہے کہ اُن سمیت پورے خاندان کے پی او آر کارڈز بن گئے ہیں لیکن اب اگر ان کے سرپرست اعلیٰ کو ڈی پورٹ کیا گیا تو وہ یہاں پر کیسے رہیں گے؟
شیرینہ کہتی ہے ” یہ (یاد رسول) اب ڈر کے مارے زندگی گزار رہا ہے، ہم بھی ڈر رہے ہیں اور ہم وہاں پر جانا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہمارے سب بچوں کی پیدائش یہاں پر ہوئی ہے۔ اب وہاں پر سخت سردی بھی چل رہی ہے، رہنے کیلئے جگہ بھی نہیں تو ہم کیسے زندگی گزاریں گے وہاں پر”؟
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ میرے شوہر کو کارڈ جاری کیا جائے کیونکہ یہاں پر میرے نواسے سارے سکول پڑھتے ہیں، وہاں پر سکول کا انتظام ہے اور نہ مدرسے کا تو ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر اعلیٰ حکام میرے شوہر کو کارڈ جاری کردیں۔
اس حوالے سے جب ٹی این این نے یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی سے رابطہ کیا تو چار دن گزرنے کے باوجود بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ انکے آفیشل ایمیل پر افغان مہاجرین کے مسئلے کے بارے میں سوالنامہ بھیجا گیا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
پاکستان کے نگران وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے چند دن قبل سینیٹ کو اپنے خطاب میں بتایا تھا کہ اس وقت تک پاکستان سے تقریباً 3 لاکھ افغان مہاجرین بے دخل کر دیئے گئے جن میں 8 ہزار افراد کو پاکستانی حکام نے نکالا ہے جبکہ باقی خود اپنی مرضی سے واپس گئے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button