خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تبدیلی کے تدارک کے لیے جی آئی ایس لیب کا قیام
خالدہ نیاز
ضلع پشاور کے علاقے جھگڑا کا کاشتکارعثمان خان پریشان ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس کی فصل کی پیداوار ویسی نہیں ہو پا رہی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ عثمان خان کا کہنا ہے کہ رواں برس گرمی زیادہ تھی اور بارشیں بھی وقت پر نہیں ہوئیں اس لیے اس سال فصلوں کی پیداوار اچھی نہیں ہوئی۔
یہ مسئلہ صرف عثمان کا نہیں بلکہ باقی کاشتکار بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پریشان ہیں کہ آخر وہ کیا کریں۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ زراعت کے مطابق اِس سال صوبے میں 14 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار کی توقع تھی لیکن بارشوں اور ژالہ باری سے کوئی ایک لاکھ میٹرک ٹن فصل خراب ہو گئی۔
کسانوں پر بدلتے موسم کے اثرات سمجھنے اور اس کے تدارک کے لیے محکمہ زراعت نے کراپ رپورٹنگ سروسز میں جغرافک انفارمیشن سسٹم یعنی جی آئی ایس لیبارٹری قائم کر دی ہے۔
اِس لیب کے انچارج عزیر احمد ہیں کہتے ہیں کہ یہاں سے موسمیاتی تبدیلی پر نظر رکھی جاتی ہے اور پھر زمینداروں کو پیشگی آگہی دی جاتی ہے کہ وہ اپنی فصل بچانے کے لیے کیا اقدامات لے سکتے ہیں۔ عزیر احمد کا کہنا ہے کہ لیب کے ذریعے سیٹلائٹ طریقے سے پورے خیبر پختونخوا کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کتنے رقبے پر فصلیں کاشت کی گئی ہیں۔ پھر یہ رپورٹ صوبائی اور وفاقی حکومت کو بھیجی جاتی ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کس ضلع میں کتنی فصلیں ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ لیب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں کو ہونے والے نقصان کا جائزہ لیتا ہے۔ زمین کو سیٹلائٹ بیس کے ذریعے دیکھا جاتا ہے، اِس کے بعد متعلقہ ضلعی آفیسر کو بھیجتے ہیں کہ وہ اُس جگہ جا کر دیکھیں اور کسانوں کو آگاہی دیں۔
انہوں نے بتایا کہ زوم ارتھ سے روزانہ کی بنیاد پر بارش کو دیکھا جاتا ہے؛ درجہ حرارت کو مانیٹر کیا جاتا ہے، اور ہوا میں نمی کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ یہ ساری معلومات ایگریکلچر ایکسٹیشن کو دی جاتی ہیں اور وہ آگے جا کر کسانوں کو آگاہ کرتے ہیں۔
سیٹلائٹ طریقے سے اکٹھی کی جانے والی معلومات کاشتکاروں تک پہنچائی جاتی ہیں۔ محکمہ زراعت کی آفیسر شاوانہ جلیل خان کہتی ہیں کہ اس جدید ٹیکنالوجی سے فصل بہتر ہو سکتی ہے اور کسان زیادہ خوشحال بھی ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جی آئی ایس ایک ریموٹ سینسنگ تکنیک ہے کہ خود فیلڈ میں جائے بغیر کس طرح جغرافیائی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر کسان ہے اور وہ مخصوص ایریا میں کھاد ڈالنا چاہتا ہے تو جی آئی ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم اُس کسان کو بتا سکتے ہیں کہ اس کھیت کی مٹی میں کیا کیا اور کہاں کہاں مسائل ہیں، اس کو کتنی کھاد ڈالنی چاہئے یا باقی کون سی اس کی ضروریات ہیں۔ اس سے یہ ہو گا کہ اضافی کھاد کا استعمال نہیں ہو گا، اِس سے کسان کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت ہے جو زراعت سے لے کر ہمارے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان اس سے متاثر ہونے والے ملکوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔ پچھلے سال کہیں سیلاب اور بارشوں تو کہیں سخت گرمی اور سردی کے باعث لاکھوں ایکڑ زمین پر زیرکاشت فصلوں کو نقصان پہنچا۔
موسمیاتی تبدیلی کے ماہر ڈاکٹر اکمل خان کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے جو جنوبی علاقے ہیں اُن میں بارشوں کا سیزن متاثر ہوا ہے۔ اِس کے علاوہ وہاں تھوڑا سا ٹمپریچر بھی بڑھا ہے جس سے کاشتکاری کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ ڈاکٹر اکمل کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے کچھ علاقوں میں فصلوں کا لائف سائیکل بھی تبدیل ہوا ہے، کسی کا بڑھا ہے تو کسی کا کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر اکمل خان کے مطابق آنے والے وقتوں میں اگر ہمیں غذائی قلت سے بچنا ہے تو ہمیں اپنے کسان کو زراعت کے جدید اور پائیدار طریقوں کی طرف لانا ہو گا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے ہمارا ملک غذائی قلت سے دوچار ہو سکتا ہے۔