لائف سٹائل

خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین پینشن اصلاحات کے خلاف کیوں ہیں؟

رفاقت اللہ رزڑوال

خیبر پختونخوا کے سرکاری ملازمین کی تنظیم آل گورنمنٹ ایمپلائی گرینڈ ایسوسی ایشن (اگیگا) نے وفاقی و سرکاری حکومتوں کی پینشن اصلاحات کے نام پر پینشن اور تنخواہوں میں کٹوتی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

چارسدہ پریس کلب کے سامنے جمعرات کو اگیگا نے احتجاجی مظاہرے کے دوران ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے جس پر ‘ملازمین میں طبقاتی نظام، پینشن کے نام پر ڈاکہ نامنظور، تنخواہوں میں کٹوتی نامنظور’ کی تحریریں درج تھیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کی ادائیگی کے بل کا بڑھتا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے پینشن سکیم 2023 میں ترامیم کا فیصلہ کرلیا ہے جس میں ریٹائرڈ ملازمین کی فیملی پنشن  کو 10 سال تک مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم اگر وفات پانے والے ملازمین کا کوئی بچہ معذور ہو تو انہیں غیرمعینہ مدت کیلئے پینشن دی جائے گی۔

ترمیم میں شہداء کی فیملی پینشن کی تجویز 20 سال تک دی گئی ہے جبکہ وزارت خزانہ نے منظوری کے لیے وزیراعظم کو سمری بھجوا دی ہے۔

سمری میں کہا گیا ہے کہ پنشن کا بل ناقابل برداشت ہے مگر یہ وہی بیان ہے جو سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے رواں سال جون میں قومی اسمبلی میں تقریر کے دوران دیا تھا۔

اسحاق ڈار نے اسمبلی کے فلور پر بتایا تھا کہ ملک پر پینشن کا بوجھ آٹھ سو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور مستقبل میں یہ بوجھ ناقابل برداشت ہو جائے گا جبکہ اسی تقریر میں انہوں نے سرکاری ملازمین پر ایک سے زائد پنشن لینے والوں کو صرف ایک کی انتخاب کرنے کی تجویز دی تھی۔

دوسری جانب آئی ایم سے قرضہ لینے سے پہلے جو سخت شرائط عائد کئے تھے ان میں پینشن اصلاحات کا ذکر بھی کیا گیا تھا جو گزشتہ بارہ سال میں 500 ارب بڑھ گئی ہے۔ اب پاکستان نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں مزید قرضہ لینے کے لیے مذاکرات کرنے ہیں جس کے لئے پاکستان پہلے اس کھڑی شرط پر عمل درآمد کرنا چاہتا ہے۔

تاہم اس خبر کے آنے کے بعد خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر کے دیگر صوبوں کے سرکاری ملازمین اس پالیسی کے خلاف سڑکوں پر نکل کر کام چھوڑ ہڑتال پر مجبور ہیں۔ جن کا مطالبہ یہ ہے کہ جب تک متعلقہ قوانین پر نظرثانی نہیں کی جاتی تو قلم چھوڑ احتجاج کے ساتھ سڑکوں پر ہوں گے۔

آل پرائمری ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر ارشد خان ترنگزئی نے ٹی این این کو بتایا کہ سرکاری ملازمین عوامی خدمت کیلئے زندگی اور جوانی کا قیمتی لمحہ گزار دیتے ہیں مگر پینشن اصلاحات کے نام پر سرکاری ملازمین پر بم گرائی ہے جسے ہم پوری قوت کے ساتھ مسترد کرتے ہیں۔

ارشد حسین کہتے ہیں کہ وہ اب ہم بڑھاپے کے قریب ہوچکے ہیں، بچے پڑھتے ہیں، ان کی عمریں شادی ہونے کے قریب ہے۔ یہی پینشن تھی جس کے بل بوتے پر سرکاری ملازمین اپنے بچوں کی ازدواجی زندگی سنوار دیتے ہیں مگر یہ فیصلہ ہم سرکاری ملازمین گلے پر چھری پھیرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اجرتی قاتل کا کردار ادا نہ کریں اور اس قانون سازی پر نظرثانی کرے کیونکہ یہ ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ ہے۔ اگر ہماری بچوں کے منہ سے کوئی نوالہ چھیننے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اس شخص کے خلاف کسی بھی اقدام اُٹھانے کیلئے تیار ہے۔

احتجاج کے دوران سرکاری ملازمین نے دعویٰ کیا کہ اس وقت وفاقی نگران حکومت غیرآئینی طور پر حکومت چلا رہی ہے اور ایک غیر آئینی حکومت کو سرکاری ملازمین کی حقوق چھیننے کا اختیار نہیں ہے۔

ایک سرکاری ملازم صابر جان نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ پینشن قوانین کے مطابق اگر کوئی سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ قابل پینشن ملازمت اختیار کرتا ہے تو وہ دونوں محکموں سے پینشن کا حقدار ہوتا ہے جبکہ اس کے وفات کے بعد ان کی فیملی تاحیات پینشن کی حقدار رہی گی مگر پینشن اصلاحات 2023 کے مجوزہ ترامیم کے تحت دو پینشنز لینے والا ایک پینشن کا حقدار اور وفات کے بعد ان کی فیملی دس سال تک پنشن لے گی۔

صابر خان کے مطابق سرکاری ملازمین پینشن گریوٹی سکیم 1954 کے تحت بھرتی کئے جاتے ہیں جس کے تحت سرکاری ملازمین کی آخری تنخواہ کے مطابق ان کی ماہانہ پینشن مقرر کی جاتی ہے مگر حکومت کی نئے فیصلے کے مطابق پچھلے 36 ماہ کی تنخواہوں کو اوسط نکال کر پینشن دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ ملازمین کے ساتھ بڑا ظلم سمجھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں آئینی طور پر قانون ساز اسمبلی موجود نہیں اور قوانین بنانا قانون ساز اسمبلی کا اختیار ہوتا ہے جبکہ نگران حکومت کو ایسی قوانین بنانے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے لیکن گزشتہ حکومت نے اس حکومت کو غیرقانونی طور پر اختیارات منتقل کر دئے ہیں جس کے خمیازہ سرکاری ملازمین معاشی قتل کے طور پر بھگت رہے ہیں۔ سرکاری ملازمین نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نے مجوزہ ترامیم پر نظرثانی نہیں کی تو وہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے پڑاؤ ڈالیں گے جس کے بعد اسلام آباد کی طرف رُخ کریں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button