لائف سٹائل

باجوڑ موسمیاتی تبدیلی کی زد میں: گنداؤ کے 11 قدرتی چشمے خشک، لوگ نقل مکانی کر گئے

مصباح الدین اتمانی

گنداؤ باجوڑ کی تحصیل اتمانخیل میں شینگس پہاڑ کے دامن میں واقع پچاس گھرانوں پر مشتمل ایک چھوٹا گاؤں ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیرزمین پانی کی سطح پچھلے پانچ سالوں میں 36 فٹ نیچے جا چکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہاں موجود دس سے زیادہ قدرتی چشمے بھی خشک ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں 12 سے زیادہ خاندانوں نے یہاں سے ہجرت کی ہے جبکہ باقی گھرانے بھی پانی کی قلت کی وجہ سے علاقہ چھوڑنے کا سوچ رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت کرنے والے افراد میں پینتالیس سالہ نثار احمد بھی شامل ہیں جو سات بچوں کے باپ ہیں۔ نثار احمد کا خاندان اس علاقے میں گزشتہ دو صدیوں سے آباد ہے۔

انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں صاف پانی کے 12 سے زیادہ قدرتی چشمے تھے جہاں سے 60، 70 گھرانوں کو پانی ملتا تھا: "پانی کی مقدار پانچ انچ سے زیادہ تھی، بچے اس میں نہاتے تھے لیکن چار پانچ سال پہلے وہ اچانک خشک ہونا شروع ہو گئے اور اب وہاں پرندوں کو بھی پینے کا پانی میسر نہیں ہے۔”

خواتین سروں پر دور سے پانی لاتی ہیں

انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں خواتین سروں پر جبکہ مرد گدھوں پر کئی کلومیٹر دور سے پانی لاتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ اور مشکل کام ہے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے ہم نے چھ مہینے پہلے اپنے گاؤں سے تحصیل سلارزئی ہجرت کی جو یہاں سے تقریباً چھ کلومیٹر دور ہے۔ نثار کے مطابق پانی کے اس مسئلے کی وجہ سے مقامی لوگ پریشان ہیں اور وہ بھی ہجرت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔

باجوڑ میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے جانے اور قدرتی چشموں کا خشک ہونا صرف اس ایک گاؤں کا مسئلہ نہیں۔ 27 اگست 2021 کو وفاقی وزارتِ پانی و آبی ذخائر کی جانب سے سینیٹ میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع میں زیرِزمین پانی کی سطح پچھلے 10 سال سے اتنی تیزی سے گر رہی ہے کہ آئندہ چند سالوں میں انہیں شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دستاویز کے مطابق ان اضلاع میں پہلے نمبر پر خیبر، دوسرے پر ہری پور تیسرا مہمند جبکہ چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ضلع باجوڑ ہے جہاں زیرزمین پانی کی سطح 32.79 فٹ نیچے چلی گئی ہے۔

کیا قدرتی چشمے یوکلیپٹس درختوں کی وجہ سے خشک ہوئے؟

نثار احمد کے نزدیک ان کے گاؤں میں قدرتی چشمے خشک ہونے اور پانی کی سطح نیچے جانے کی ذمہ دار شجرکاری ہے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا: "میری پیدائش سے لے کر 2019 تک یہاں کبھی پانی کی مقدار کم نہیں ہوئی لیکن چار سال پہلے جب اس علاقے کے شینگس پہاڑ میں یوکلیپٹس جسے مقامی زبان میں ‘لاچی’ بولتے ہیں، اس کے ایک لاکھ سے زیادہ درخت لگائے گئے تو یہاں پانی کی مقدار کم ہونا شروع ہو گئی اور اس پہاڑ میں موجود ایک درجن سے زیادہ قدرتی چشمے خشک ہو گئے۔”

انہوں نے کہا کہ یہ صرف ہمارے علاقے کا مسئلہ نہیں بلکہ جہاں بھی یہ درخت لگائے گئے ہیں وہاں یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔

محکمہ جنگلات باجوڑ کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق باجوڑ میں 2018 سے 2023 تک 10 بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے تحت باسٹھ لاکھ درخت لگائے جا چکے ہیں جن میں اٹھارہ لاکھ ساٹھ ہزار یوکلپٹس کے درخت شامل ہیں جو کل تعداد کا 30 فیصد بنتے ہیں۔

ان پانچ سالوں میں ایکسلریٹیڈ ایمپلیمینٹیشن پروگرام کے تحت بھی باجوڑ میں ایک لاکھ دو ہزار ایک سو پچیس درخت لگائے گئے ہیں جن میں یوکلپٹس کے دس ہزار چھ سو سینتیس درخت شامل ہیں۔

ماحولیاتی سائنس کے ماہر اور خیبر پختونخوا کے محکمہ تحقیق میں بطور واٹر اینڈ سائل ایکسپرٹ کام کرنے والے ذاکرااللہ جان باجوڑ میں قدرتی چشمے خشک ہونے اور پانی کی زیرزمین سطح نیچے جانے کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں غلط اور ماحول دشمن درختوں کے انتخاب کو قرار دیتے ہیں۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں تیز ترین نتائج حاصل کرنے کے لیے حکومت نے یوکلپٹس درخت زیادہ مقدار میں لگائے جس کی وجہ سے اب نہ صرف زیرزمین پانی کی سطح متاثر ہو رہی ہے بلکہ پہاڑوں میں قدرتی چشمے بھی خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

یوکلپٹس کا ایک درخت دن میں زمین سے پانچ سے 15 گیلن تک پانی جذب کرتا ہے

ذاکراللہ نے ایک حالیہ عالمی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یوکلپٹس کا ایک درخت دن میں زمین سے پانچ سے 15 گیلن تک پانی جذب کرتا ہے۔ ایک گیلن 3.78 لیٹر کے برابر ہے اور یہ درخت پھر یہی پانی ہوا میں پتوں کے ذریعے چھوڑ دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکلپٹس آسڑیلیا کا مقامی درخت ہے لیکن وہاں پر بھی اسے انسانی آبادیوں اور جنگلات سے دور علاقوں میں لگایا جاتا ہے کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں کافی گہرائی تک جاتی ہیں جس سے وہاں زیرزمین پانی کے ذخائر اور چشموں کو نقصان پہنچتا ہے۔

دوسری جانب محکمہ جنگلات کے کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر جمیل احمد نے اس حوالے سے بتایا کہ شجرکاری سے پہلے ہم جگہ کا تعین کرتے ہیں، پھر زمین مالکان اور مقامی افراد کے مشورے سے وہاں کے موسم  کی مناسبت سے پودے لگاتے ہیں۔

انہوں نے پچھلے پانچ سال کے دوران باجوڑ میں 18 لاکھ 90 ہزار 637 یوکلپٹس درخت لگانے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ باجوڑ میں زیادہ تر لوگ اس درخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ لوگ اس کو منافع بخش سمجھتے ہیں کیونکہ یہ جلد تناور درخت بن جاتا ہے جبکہ کٹائی کے بعد یہ دوبارہ بھی تیزی سے بڑھتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ باجوڑ میں زیرزمین پانی کی سطح پہلے سے نیچے جا رہی ہے پھر ایسے درخت کیوں لگائے جا رہے ہیں جس سے زیرزمین پانی کی سطح مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ یوکلپٹس سے زیرزمین پانی کی سطح متاثر نہیں ہوتی، یہ علاقے ان درختوں کے لیے موزوں ہیں کیونکہ پانی کم ہو یا زیادہ یہ اپنی گروتھ برقرار رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ان پودوں کے لیے محض تین سال تک مینٹیننس دی جاتی ہے، چیڑ اور دیگر درخت اتنے عرصے میں ‘اسٹیبلش’ نہیں ہوتے جبکہ ان کے لیے زیادہ موزوں بھی اونچے پہاڑ ہوتے ہیں۔ چیڑ کے بڑھنے کا عمل آہستہ ہوتا ہے اور اس کے لیے زیادہ موزوں اونچے پہاڑ ہوتے ہیں۔ تین سال میں یہ اسٹیبلش نہیں ہوتے اور ہمیں تین سال تک مینٹیننس دی جاتی ہے، اس وجہ سے یہ کم لگاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی کیا عوامل ہیں جو زیرزمین پانی کے ذخائر پر اثرانداز ہو رہے ہیں، اس حوالے سے ذاکراللہ جان نے ٹی این این کو بتایا کہ بنجر زمین پر سورج کی شعاعیں براہ راست پڑنے سے آبی بخارات کی شرح بڑھ جاتی ہے، جہاں ماحول دوست پودے یا فصلیں ہوتی ہیں وہاں سورج کی شعاعیں زمین پر براہ راست نہیں پڑتیں جس سے زیرزمین پانی کے ذخائر متاثر نہیں ہوتے۔

طرز زندگی اور موسمیاتی تبدیلی

ذاکراللہ نے ہمارے لائف سٹائل/طرز زندگی کو بھی موسمیاتی تبدیلی کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ہم نے بڑے اور پکے مکانات تعمیر کیے جو نہ خود بارش کا پانی جذب کرتے ہیں اور نہ ہی زمین کو جذب کرنے دیتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ بارشوں کے پیٹرن بھی متاثر ہوئے؛ پہلے بارش کم مگر آہستہ آہستہ ہوتی اور وہ زمین میں جذب ہو جاتی لیکن اب بارش زیادہ مگر تیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کو زمین میں جذب ہونے کا موقع نہیں ملتا اور وہ پانی دریاؤں اور سمندروں میں بہہ جاتا ہے۔

ذاکرااللہ کے خیال میں زیرزمین پانی کی سطح گرنے کی ایک بڑا وجہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویل بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بلاضرورت شمسی توانائی پر چلنے والے ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیرزمین پانی کے ذخائر سے ضرورت سے زیادہ پانی نکال کر ضائع کر دیتے ہیں جس سے وہ سطح متاثر ہو رہی ہے۔

دبئی میں قائم زرعی تحقیقی ادارے "انٹرنیشنل سنٹر فار بائیو سیلائن ایگری کلچر” میں آبپاشی کے سائنسدان ڈاکٹر اسد قریشی کے تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان زیرزمین پانی استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جو دنیا میں زمین کے نیچے سے نکلنے والا 9 فیصد پانی استعمال کرتا ہے۔

زیرزمین پانی کی سطح نیچے جانے کا مسئلہ صرف باجوڑ میں نہیں

 ڈپٹی کمشنر باجوڑ انور الحق نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا  کہ زیرزمین پانی کی سطح نیچے جانے کا مسئلہ صرف باجوڑ میں نہیں، یہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں اور پورا خیبر پختونخوا اس کا شکار ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، ماحول سے عوام کی لاپرواہی اور بارش کے پیٹرن میں تبدیلی ہم پر اثرانداز ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عوام اور حکومت مل کر کام کریں تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

انورالحق نے بتایا کہ اس حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت کے ‘لینڈ یوز اینڈ بلڈنگ پلان’ پراجیکٹ پر کام چل رہا ہے جس میں ہم بنجر زمین اور اس کے جدید طریقوں سے آبپاشی کے حوالے سے بات کریں گے تاکہ زیرزمین پانی کو مزید ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جو درخت زیادہ پانی جذب کرتے ہیں انکو باجوڑ میں نہیں لگایا جائے گا جبکہ جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینے میں انہوں نے ٹمبر مافیا کے درختوں سے بھرے 9 ٹرکوں کو پکڑا ہے تاکہ باجوڑ میں درختوں کی غیرقانونی کٹائی کو روک سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان اقدامات کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

 نوٹ۔ یہ سٹوری پاکستان پریس فاونڈیشن کی فیلوشپ کا حصہ ہے۔ 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button