سیلاب اور بدامنی سے سوات کی سیاحت ماند پڑ گئی
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا کا ضلع سوات گرمیوں میں سیروسیاحت اور تفریح کیلئے ایک پرفضا علاقہ تصور کیا جاتا ہے اور ہر سال اندرون اور بیرون ممالک سے لاکھوں سیاح قدرتی حسین اور دلکش مناظر سے لطف اُٹھانے کیلئے آتے ہیں مگر اس بار موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے حالیہ سیلابوں اور بدامنی کی فضا سے سوات کی رونقیں ماند پڑ گئیں جس سے مقامی سطح پر معیشت کو اربوں روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا۔
یہ ایک ایسے حال میں جب دنیا بھر میں 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کے ورلڈ ٹورازم آرگنازئزیشن کی جانب سے سیر و سیاحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد سیاحت کے ذریعے کسی علاقے کے اقتصاد، روزگار کو بہتر اور ماحول اور ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانا ہے۔
حالیہ دنوں میں سیاحوں نے ضلع سوات کی جانب رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے جس کی بنیادی وجہ سیاحوں کے مطابق 9 اگست کو مٹہ میں پاکستانی طالبان، کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پولیس ڈی ایس پی اور ایک فوجی میجر سمیت پانچ اہلکاروں کو یرغمال بنایا جانا تھی جن کو مذاکرات کے بعد چھوڑ دیا گیا مگر علاقے میں طالبان کی موجودگی سے سیاحوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے رہائشی احسان اللہ ہر سال اگست کے مہینے میں اپنے دوستوں کے ہمراہ ضلع سوات کے سیاحتی مقامات مالم جبہ، کالام، گبین جبہ، فضا گٹ اور کمراٹ کے دورے پر نکلتے ہیں مگر اس بار انہوں نے اپنا وزٹ منسوخ کر دیا ہے۔
احسان اللہ نے ٹی این این کو بتایا کہ اس بار بھی انہوں نے سوات کے سیاحتی مقامات کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا تھا مگر جب میڈیا پر مسلح افراد کی موجودگی کی اطلاعات آنے لگیں تو انہوں نے دوستوں کے مشورے سے وزٹ منسوخ کیا اور مری اور کالام کی طرف نکل پڑے۔
ضلع سوات میں ہوٹل مالکان کی تنظیم سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان نے ٹی این این کو بتایا کہ اس وقت سوات میں سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان کے تخمینے کے مطابق تقریباً 10 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
زاہد خان کا کہنا تھا "اگر کوئی سیاح ہوٹل میں ایک کمرے کی قیمت ہزار یا دو ہزار روپے ادا کرتا ہے تو وہ سیاحت پر مزید دس ہزار روپے خرچ کرے گا جس سے دیگر کاروباری شعبوں کو فائدہ ملتا ہے اب چونکہ ہوٹلز اور ریستوران ویران پڑے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ سوات میں سیاح نہ ہونے کے برابر ہیں۔”
سوات ہوٹلز ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق ضلع سوات میں پانچ سو ہوٹلز اور سات سو تک ریستوران ہیں جن سے لگ بھگ 60 ہزار افراد کا براہ راست ذریعہ معاش جُڑا ہوا ہے۔ زاہد کے مطابق نہ صرف یہ مزدور بے روزگار ہو چکے ہیں بلکہ بیکری، کاسمیٹکس، جنرل سٹورز، سبزی اور مچھلی فروشی سے جڑے لاکھوں افراد بھی فارغ بیٹھے ہیں۔
ہوٹلز ایسوسی ایشن صدر زاہد نے بتایا "ضلع سوات سیاحت کی مد میں پاکستان کی معیشت کو بڑا فائدہ فراہم کرتا ہے، پہلے ہم 2007 میں دہشت گردی کی جنگ سے متاثر ہوئے پھر فوجی آپریشن ہوا جس کی وجہ سے امید پیدا ہوئی کہ بدامنی کی دوسری لہر نہیں آئے گی مگر اب دوبارہ دہشت گرد منظم ہو رہے ہیں جو سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، اگر امن بحال ہوا تو سوات میں دوبارہ سیاحوں کی آمد شروع ہو جائے گی مگر یہ بھی کافی محنت طلب کام ہے۔”
زاہد خان کے مطابق کہ جہاں پر مسلح افراد کی موجودگی کی اطلاع ہوتی ہے وہاں پر پولیس آپریشن کرتی ہے تو اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس وقت ضلع سوات میں مکمل طور پر امن ہے اور نہ صرف عوام امن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں بلکہ سیاحوں کے تحفظ کیلئے بھی پولیس کی پندرہ ہزار نفری اور فوج تعینات کی گئی ہے۔
سیاحت کے شعبے کو فروغ کے سرکاری محکمہ سیاحت و کلچر کی جانب سے 26 ستمبر کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ کمراٹ اور مالم جبہ میں مجموعی طور پر 270 سیاح جا چکے ہیں جبکہ سیاحوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سیلاب کی وجہ سے خراب انفراسٹرکچر بتائی گئی ہے۔
محکمہ سیاحت و کلچر کے ترجمان سعد بن اویس کے ساتھ جب سوات کی صورتحال پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ امن و امان کی صورتحال پر وہ بات نہیں کر سکتے البتہ سوات میں سیاحوں کا آنا جانا رہتا ہے، سیاحوں کا رش کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ضلع سوات میں حالیہ سیلابوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے جانا کم کر دیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ و سیاحت کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم قاضی کا ماننا ہے کہ سیاحت کسی علاقے کی معاشی ترقی، ماحول اور تاریخی آثار کو محفوظ بنانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ادا کرتی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان قدرتی طور پر دنیا بھر میں ایک سیاحتی مرکز ہے جہاں پر قدرتی اور دلکش مناظر کے ساتھ ہزاروں سال پرانی تاریخی ورثے موجود ہیں جن میں گندھارا تہذیب، تخت بھائی کھنڈرات، جمال گڑھی، شہباز گڑھی اور ڈیرہ اسماعیل خان سرفہرست ہیں جہاں پر مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے سیاح سیر کیلئے آتے ہیں جو پاکستان کی اقتصاد میں کافی اہم رول ادا کرتے ہیں۔
پروفیسر نعیم قاضی نے کہا کہ جب کسی بیرون ملک کے سیاح پاکستان میں سیاحت کیلئے آتے ہیں تو اپنی کرنسی کو یہاں پر تبدیل کر کے روپے میں بدل دیتے ہیں اور پھر اس رقم کو یہاں پر خرچ کر دیتے ہیں جس سے لوگوں کے روزگار، علاقے کی اقتصاد بہتر ہوتی جا رہی ہے اور جن آثار کو وہ دیکھنے آتے ہیں اس میں مزید بہتری کیلئے حکومت کام کرتی ہے۔
انہوں نے ضلع سوات کی حالیہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پر امن و امان کی فضا کافی بہتر ہے لیکن چند علاقوں میں مسلح افراد کی موجودگی سے نمٹنے کیلئے سیکورٹی اداروں میں اہلیت موجود ہے، "بدامنی کی صورتحال ہم نے 2007 میں بھی دیکھی تھی جہاں پر مسلح افراد کے خلاف سیکورٹی اداروں نے کاروائیاں کر کے علاقے کو صاف کر دیا اور دوبارہ سیاحوں کا اعتماد بحال ہوا جس کے بعد ہر سال سوات میں 20 لاکھ تک لوگ سیاحت کے لئے جاتے رہے، تو یہ مسئلہ بھی جلد حل ہو جائے گا۔”