سیاستکالم

برطانیہ: ہندو مسلم فسادات کی ابتداء کیسے ہوئی؟

محمد سہیل مونس

17 ستمبر کو لیسسٹر شائر کے بل گرئیو شاہراہ پر چند ہندو نوجوانوں کا جھتہ مارچ کرتا ہوا نکلا جو جے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، جنھوں نے چہروں پہ نقاب اور ہوڈیز پہنی ہوئی تھیں۔ ان کو دیکھ کر مسلم نوجوانوں نے بھی ردعمل کے طور پر نعرے بازی شروع کر دی اور پھر بات ایک دوسرے پر بوتلیں پھینکنے اور ہاتھاپائی تک جا پہنچی۔

یہ سلسلہ بڑھتا بڑھتا اس طرح کے کئی واقعات کی شکل میں ڈھلتا چلا گیا جس دوران سوشل میڈیا نے جلتی پہ تیل کا کام بھی کیا اور پورے برطانیہ میں مذہبی تعصب کے اس کھیل نے زور پکڑا جبکہ ساتھ میں ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ ایک مزید خبر یہ بھی وائرل ہوئی کہ ایک مسلم نوجوان لڑکی کو کسی ہندو نے اغواء کر لیا ہے جس کی پولیس نے تردید بھی کی کہ اس طرح کا کوئی واقعہ رونماء نہیں ہوا۔

ہم اگر غور کریں تو گزشتہ منگل کو سمتھ وک کے انڈسٹرئیل یونٹ کے علاقے میں ان فسادات کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کے دستے تعینات کئے گئے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار حالت سے نمٹا جا سکے لیکن ان پر بھی بوتلیں اور پٹرول بم قسم کی چیزیں پھینکی گئیں۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے 37 مشتبہ افراد کو اس وقت حراست میں لیا جب سمتھ وک کے علاقہ میں ایک ہندو ٹمپل (درگا باؤن)کے قریب لوگ اکٹھے ہوئے اور نعرے بازی کرنے لگے۔

ایک دوسرے علاقے میں ہجوم کے ساتھ پکڑ دھکڑ میں ایک اٹھارہ سالہ مسلم نوجوان کو چاقو کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ویسٹ مڈلینڈ کے علاقہ میں گشت شروع کر کے حالات کو پرامن رکھنے کے لئے بھرپور اقدامات اٹھائے۔

چند واقعات گرین لین روڈ لیسسٹر میں بھی رونماء ہوئے جہاں پر ہندو نوجوانوں نے مسلم اکثریتی آبادی میں ان کی دکانوں کے سامنے نعرے بازی کی جس میں بھی مسلم نوجوانوں سے ان کی نوک جھونک ہوئی۔ یہ سارے کا سارا سلسلہ شروع تب ہوا جب 28 اگست کو دبئی میں بھارت نے پاکستان کو ایشیاء کپ کے ایک میچ میں ہرا دیا پھر اللہ بھلا کرے سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنے والوں کا جن کے نفرت انگیز پیغامات کے پھیلانے کی وجہ سے بات بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچی۔

اس سے قبل ہم اسی ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں ہمارے پڑوس میں واقع ایک اور ملک کے کھلاڑیوں کا رویہ بھی ملاحظہ کر چکے ہیں جن کا پاکستان سے اگر خدا واسطے کا بیر ہے بھی نہیں تو اپنے گریبانوں میں وہ نہیں جھانکتے کہ ان کی تباہی کا سبب فقط پاکستان نہیں وہ خود ہیں۔

میں خود 27 برس سے افغانستان کے مسائل کی نشاندہی کرتا چلا آیا ہوں اور ان کے جہادی جھتوں اور وار لارڈز کی اقتدار کے لئے رسہ کشی کا بھی گواہ ہوں حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانے سے لے کر کئی مراحل سے گزر کر بھی وہ کسی بات پر متفق نظر نہیں آئے تو اس میں پاکستان بچارے کا واحد قصور تو نہیں۔

اب اگر ہندو مسلم لڑائی کو ہی لے لیں تو محض مذہبی منافرت کا رنگ دے کر اسے دیکھا جاتا ہے جو کہ ہے بھی ایسا لیکن ان چیزوں کا فائدہ بھی کئی قوتیں اٹھاتی ہیں جن میں ہمارے اپنے ہی لوگ شامل ہوتے ہیں مگر نوجوانوں یا بھولے بھالے لوگوں کو اگر استعمال نہ کیا جائے تو پھر اس نسل کی نظریں اصل معاملات پر مزکور ہو جائیں گی اور عوام حقائق سے باخبر ہو جائیں گے۔

ہم اگر برطانیہ میں مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے عناصر سے یہ پوچھیں کہ بھائی آپ اتنی دور آ کر جو فرنگی کے واش رومز صاف کر رہے ہیں، پلیٹیں دھو دھو کر زندگی کے شب و روز اس غلامی میں گزار رہے ہیں کیا کبھی سوچا ہے کہ آپ کا ملک آپ کو کوئی بہتر روزگار کیوں فراہم نہ کر سکا، کیا آپ نے اتنا پڑھ لکھ کر یا ہنر سیکھ کر عرب کے صحراؤں کی ریت ہی چھاننی ہے؟ کیا کسی فرنگی یا عربی کو اپنے دیس میں آپ نے مزدوری کی غرض سے آتے دیکھا ہے؟ غلام ابن غلام کی اولادو! غیرت اور حمیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

بات ذرا سوچنے کی ہے کہ ہم برصغیر کے لوگ نہ جانے کس مٹی کے بنے ہیں، ہم اس بات سے خوش ہوتے ہیں کہ مائیکرسافٹ میں فلاں ہندو فلاں مقام پر ہے، فلاں ایشین ناسا میں فلاں سیٹ پر ہے، اگر ہمارے لوگوں میں ذرہ برابر بھی عقل ہوتی تو آج ہماری اولادیں ان کے ٹکڑوں پہ نہ پل رہی ہوتیں۔ ہم نے لسانیت، مذہب، رنگ و نسل اور نہ جانے کتنے حصاروں میں اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے جبکہ کس دھڑلے سے اپنے گھناؤنے خیالات اور عقائد کا دفاع بھی کرتے ہیں۔

خیر مغرب کا زوال تو ایک دن آنا ہی تھا لیکن برطانوی بھی کیا یاد کریں گے کہ جس بیج کی نگہداشت ہم نے برسہابرس سے کی تھی اماں جان کے دیہانت (انتقال) کے ساتھ ہی قدآور درخت بن کر پھل دینے لگا، اسی کو کہتے ہیں مکافات عمل اور جو بویا ہوتا ہے اسے کاٹنا بھی پڑتا ہے۔

ہماری دعاء ہے کہ ساری دنیا میں امن رہے لیکن اب یہ ایک ناممکن سی بات لگ رہی ہے کیونکہ انسانیت پاگل ہو چکی ہے اور اس کے پاس کرنے کو کچھ بھی نہیں بچا ماسوائے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو تباہ کرنے کے، انسان نے ترقی کر لی اور نتائج کیا آئے گلوبل وارمنگ، ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئی بیماریاں، تباہیاں، دھماکے، دوسروں کے ذخائر پہ قبضہ، خدا کے سیدھے سادھے اور چلتے نظام میں مداخلت، ویسے کیا پایا دنیا کی بڑی طاقتوں نے خفیہ ایجنسیز بنا کر، ایک کو دوسرے اور دوسرے کو تیسرے کے ہاتھ ہلاک کر کے، وقت آ گیا ہے کہ انسان حیوانیت سے نکل آئے ورنہ قدرت کی لاٹھی نہایت ہی بے آواز ہوتی ہے۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button