‘کرم میں تشدد جلد پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا’
ضم شدہ اضلاع باالخصوص ضلع کرم میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیشِ نظر اِن علاقوں سے تعلق رکھنے والے سابقہ پارلیمنٹیرینز کا اجلاس؛ خیبر پختونخوا، اور خصوصاً ضلع کرم میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار
ضم شدہ اضلاع باالخصوص ضلع کرم میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پیشِ نظر اِن علاقوں سے تعلق رکھنے والے سابقہ پارلیمنٹیرینز کا اجلاس پشاور میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں خیبر پختونخوا، اور خصوصاً ضلع کرم میں سیکورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی تمام تر توجہ امن کی بحالی کے لیے لگائیں، اور خبردار کیا کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ تشدد جلد ہی پورے صوبے اور پھر پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
سابقہ پارلیمینٹیرینز نے تسلیم کیا کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ فاٹا میں امن قائم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن چونکہ عملی طور پر انضمام کا عمل آج بھی جاری ہے، اور انضمام سے قبل کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں کیے گئے، اس لیے ضم شدہ اضلاع کے عوام کا وفاقی حکومت پر بھی حق بنتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لکی مروت: پہاڑخیل پکہ میں سب انسپکٹر سمیت باپ اور بیٹا قتل
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں ذمہ دار حلقوں اور سیکیورٹی قیادت کے سامنے امن کی بحالی کیلئے سفارشات اور تجاویز رکھی جائیں گی، جبکہ امن کے لیے ضلع بھر میں جاری کوششوں کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی جائے گی۔
انہوں نے اس امر ہر زور دیا کہ کرم سمیت کسی بھی مسئلے کا حل مزید تشدد میں نہیں بلکہ بات چیت ٓکے آغاز، اور اسے جاری رکھنے میں ہے۔
خیال رہے کہ 21 نومبر کو پشاور پاراچنار شاہراہ پر مسافر گاڑیوں کے کانوائے پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس میں بچوں اور خواتین سمیت 45 افراد جاں بحق ہوئے تھے، جبکہ بعدازاں پرتشدد مظاہروں اور مسلح جھڑپوں کے دوران اب تک 124 افراد جاں بحق جبکہ 178 زخمی ہو گئے ہیں۔