موسمیاتی تغیر: خیبر پختونخوا میں زراعت کیلئے بڑا خطرہ
کاشتکار پریشان ہیں کہ ان آفات کا مقابلہ کیسے کریں؟ ان کے مطابق کے مطابق کسانوں کی مشکلات کم کرنے کی حکومتی کوششیں بھی موسمیاتی تغیر کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں۔
ہر سال طوفانی بارشوں، سیلاب، خشک سالی، گرم ہواؤں اور درجہ حرارت میں اضافے کی صورت میں نموپذیر موسمیاتی تغیر دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی زراعت کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے؛ کاشتکار پریشان ہیں کہ ان آفات کا مقابلہ کیسے کریں؟ صوبے میں فصلوں کی موسمیاتی مزاحمت رکھنے والی اقسام متعارف کرنے کی ضرورت اور اس حوالے سے کسانوں میں آگاہی پھیلانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
خیبر پختونخوا میں گندم کی فصل دسمبر میں کاشت کی جاتی ہے اور اگر بروقت پانی مہیا نہ ہو تو پیداوار میں کمی کا خدشہ رہتا ہے۔ صرف پانی کی کمی ہی نہیں بلکہ بے وقت بارشوں، خشک سرد موسم، اور طوفانی بارشوں سے گندم کی فصل کا تحفظ بھی اب کاشکاروں کے لئے مشکل ہو تا جا رہا ہے۔
یاد رہے پچھلے سال اپریل میں طوفانی بارشوں سے صوبے میں 44,320 ایکڑ پر پھیلی ہوئی فصلوں کو نقصان پہنچا تھا جس میں 35,948 ایکڑ پر گندم کی تیار فصل بھی شامل تھی۔ کراپ رپورٹنگ سروسز ڈائریکٹوریٹ، خیبر پختونخوا کے مطابق پچھلے سال اپریل میں بے وقت بارشوں سے گندم؛ چنے، چارے، سرسوں، کینولا، اور گنے سمیت پھل اور سبزیاں بھی بری طرح سے متاثر ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ‘کرم میں تشدد جلد پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا’
چارسدہ روڈ، پشاور، کے رہائشی فضل نبی کی ڈھائی ایکڑ زمین ہے؛ ابھی گنے کی کٹائی کا سیزن ہے جبکہ دسمبر میں وہ گندم کاشت کریں گے۔ نبی اور اس علاقے کے دیگر کسان نہری پانی سے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارشیں وقت پر ہو جائیں تو بھی گندم کی اچھی خاصی فصل حاصل ہو جاتی ہے لیکن اسے معلوم ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں کی طرح اس بار بھی گندم کی پیداوار میں کمی ہی دیکھنے کو ملے گی۔
فضل ربی کے مطابق گندم کاشت کرنے کے بعد وہ فصل کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرتے ہیں؛ وقت پر پانی دیتے، اور کھاد اور سپرے وغیرہ کا خاص بندوبست کرتے ہیں: "پچھلے سال 20 من گندم ہوئی۔ پہلے یہ مقدار زیادہ تھی اب نہیں معلوم کہ گندم کی پیداوار میں کمی کیوں آ رہی ہے۔ بازار سے معیاری بیج لاتا ہوں لیکن پھر بھی وہ موسم کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔”
گندم اور دوسری فصلوں کو موسمیاتی تغیر سے کیسے بچائیں؟
فصلوں کی موسمیاتی مزاحمت رکھنے والی اقسام کے حوالے سے ٹی این این نے زرعی یونیورسٹی پشاور کے ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمئیٹ چینج سنٹر ڈاکٹر ہارون خان سے جاننے کی کوشش کی۔
ڈاکٹر ہارون کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، شدید گرمی اور خشک سالی فصلوں کی پیداوار میں کمی کے اسباب ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے مطابق بیجوں کی ترقی کو عالمی سطح پر اور پاکستان میں بھی خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس شعبے میں ترقی کا مقصد ایسی فصلوں کی اقسام تیار کرنا ہے جو گرمی، خشک سالی اور دیگر دباؤ برداشت کر سکیں۔ روایتی افزائش اور بہتر اقسام کے لیے گندم، چاول، اور مکئی کی کئی ایسی اقسام تیار کی گئی ہیں۔ گرمی برداشت کرنے والی فصلیں بھی جو زیادہ درجہ حرارت میں پیداوار کو بہتر بناتی ہیں۔
اسی طرح بائیو ٹیکنالوجی اور جینیاتی انجینئرنگ کا استعمال اگرچہ پاکستان میں محدود ہے لیکن گرمی اور خشک سالی کے خلاف مزاحمت بڑھانے میں یہ ٹیکنالجویز امید افزا ہیں۔
موسمیاتی تغیر کے مطابق بیجوں کی ترقی
ڈاکٹر ہارون خان کے مطابق مختلف تنظیموں کے تعاون (آئی سی آر آئی ایس آے ٹی) اور (سی آئی ایم ایم وائی ٹی) کی شراکت داری سے انہوں نے فصلوں کی موسمیاتی مزاحمت رکھنے والی اقسام متعارف کروائی ہیں؛ اور کسانوں کو کم پانی استعمال کرنے والی اور دالیں، تیل والے بیج اور کوائنوا جیسی زیادہ مزاحمتی فصلیں اگانے کی ترغیب دی ہے: ”خشک سالی برداشت کرنے والے گندم کے بیج سے خیبرپختونخوا کے بارانی علاقوں میں غیرمتوقع بارشوں کے باجود پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ہم نے صوبے میں سبزیوں کے لیے ہائبرڈ بیج اختیار کیے ہیں جو کہ کیڑوں اور گرمی کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتے ہیں جس سے پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔” موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جدید بیجوں کی تیاری اور ادارے کی کارکردگی کے حوالے سے ڈاکٹر ہارون خان نے بتایا کہ مزاحمتی بیجوں کی ترقی کے لیے مختلف شراکتی کوششوں کے زریعے کئی اقسام کے بیج تیار کیے گئے ہیں۔
شدید موسم برداشت کرنے والے بیج ناکام کیوں؟
ضلع مردان کے 45 سالہ کاشتکار اسد خان نے بتایا کہ وہ مارکیٹ سے نئے بیج لاتے ہیں لیکن ان کی فصل موسمی تغیر سے محفوظ نہیں رہتی؛ اور وہ مایوس ہیں کپہ پچھلے 5 سالوں سے ان کی فصل یا تو شدید گرمی کے باعث جلدی ختم ہو جاتی ہے یا بے وقت طوفانی بارشیں ان کی فصل تباہ کر دیتی ہیں۔ اس سال اس نے ہائبرڈ کدو کاشت کیا تھا لیکن وہ بھی شدید موسم کا مقابلہ نہیں کر سکا: "ایگریکلچر ڈیپارٹمٹ کا دعویٰ ہو گا کہ وہ موسمیاتی مزاحمت رکھنے والے بیج مارکیٹ میں متعارف کرا رہے ہیں لیکن حقیقت میں تمام بیج شدید موسم کے آگے ناکام ہیں۔”
دوسری جانب ڈاکٹر ہارون خان کا دعویٰ ہے (پی بی جی) پلانٹ بریڈنگ اور جینیٹکس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ تعاون سے ایسے بیج تیار کئے گئے ہیں جو خیبر پختونخوا کے خشک اور نیم خشک علاقوں کے لیے موزوں ہیں۔ اسی طرح مکئی کے خشک سالی کے خلاف مزاحمت رکھنے والے ہائبرڈ بیج بھی تیار کیے گئے جو بے ترتیب بارشوں والے علاقوں میں پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کیڑوں کے خلاف مزاحمت رکھنے والے ہائبرڈ بیج بھی ادارے نے تیار کئے ہیں۔
موسمیاتی تغیر کے دور میں گندم کی پیداوار
اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے آیف ڈبلیو او کے مطابق موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں زراعت کو متاثر کر رہی ہے جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار میں کمی اور کاشتکاری کے نظام میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر فصلوں کی پیداوار میں ہر سال تقریباً ٪2 تک کمی واقع ہو رہی ہے۔ ایف اے او کے مطابق 2050 تک موسمیاتی تبدیلی کی شدت زراعت کے شعبے میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کے نقصانات کا سبب بن سکتی ہے جس سے فوڈ سیکورٹی پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
ڈاکٹر ہارون کے مطابق گندم کی بوائی کے موسم کے قریب پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ اس میں بیجوں کا انتخاب، مٹی کی صحت، غذائی اجزاء کا انتظام، آبپاشی، کیڑوں اور بیماریوں پر قابو پانے اور جدید زرعی طریقوں کو شامل کرنا چاہیے۔ ذیل میں درج اقدامات زیادہ پیداوار کے حصول میں ممد ثابت ہو سکتے ہیں۔
بیجوں کی تصدیق شدہ، زیادہ پیداوار دینے والی معیاری اور موسمیاتی مزاحمت کی حامل اقسام کا انتخاب کریں۔
بیجوں کا فنگس کش ادویات (مثلاً کاربینڈازم) سے علاج کریں۔
عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافے، یا موسمیاتی تبدیلی کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں جن میں تیل اور ایندھن کا کثیر استعمال، گاڑیوں، فیکٹریز اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں، نیوکلیئر پلانٹس سے نکلنے والے تابکار مادے، جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی جیسے عوامل سرفہرست ہیں۔ جب سے درجہ حرارت میں فرق آنا شروع ہوا تو بارشوں، سیلابوں اور ہواؤں کے پیٹرن بھی تبدیل ہو گئے۔ کئی سالوں سے دیکھا جارہا ہے کہ بے ترتیب ہوائیں چلتی ہیں؛ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہیں، خطرناک طوفان آتے ہیں حتیٰ کہ سیلاب آتے ہیں۔ اسی تغیر کا نتیجہ ہے جب اکتوبر 2022 میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا تھا۔ ملک بھر میں سترہ سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے؛ 12 ہزار سے زائد زخمی، جبکہ تین کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ اسی طرح تقریباً 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی ہوا۔
حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی زراعت پر نمایاں منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی 24-2023 کی اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زرعی پیداوار کم ہو رہی ہے اور قدرتی آفات جیسے سیلاب اور خشک سالی کا بڑھتا ہوا خطرہ کسانوں کے لئے چیلنج بن گیا ہے۔ حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے "نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی” جیسے اہم اقدامات کر رہی ہے مگر ان کے اثرات محدود ہیں۔ کاشتکاروں کے مطابق کسانوں کی مشکلات کم کرنے کی حکومتی کوششیں بھی موسمیاتی تغیر کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں۔