خیبرپختونخوا میں مزدوروں کی اجرت میں اضافے کا اعلان بے عمل،مزدوروں کی بے چینی بڑھ گئی
آفتاب مہمند
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے منظوری کے باوجود مزدوروں کی ماہانہ کم سے کم اجرت کے بڑھانے کا اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں و دیہاڑی دار مزدور طبقے میں بے چینی بڑھ گئی۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مرکزی چیئرمین رازم خان، پریس سیکرٹری جمیل مہمند، لیبر یوتھ ونگ کے صدر احسان اللہ، آفس سیکرٹری عدنان خان اور ڈپٹی جنرل سیکرٹری عدنان خان نے اسی حوالے سے بتایا کہ صوبائی حکومت نے بجٹ میں مزدوروں کی اجرت بڑھا کر 36 ہزار کر دی ہے جس کی منظوری متعلقہ بورڈ نے دی ہے لیکن اس کا اعلامیہ جاری نہ ہوسکا جس سے صوبے بھر کے لاکھوں مزدوروں کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
اعلامیہ کے اجراء میں تاخیر کے باعث مزدوروں کے مالکان پر بقایاجات بڑھتے جا رہے ہیں اور بعد میں مالکان کو اس کی یکمشت ادائیگی مشکل ہو جائیگی۔
اسی طرح خیبر پختونخوا کے مقابلے میں وفاق اور دیگر صوبوں کی حکومتوں نے مزدوروں کی اجرت 37 ہزار کر دی ہے اس لئے خیبر پختونخوا حکومت بھی اس اجرت پر نظرثانی کرکے دیگر صوبوں کے برابر کرانے کیلئے اقدامات کرے تاکہ خیبر پختونخوا کے مزدوروں کی بے چینی دور ہو سکے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور ، صوبائی وزیر محنت ، صوبائی وزیر بلدیات اور سیکریٹری محنت و سیکرٹری بلدیات سے مزدوروں کی کم سے کم ماہانہ اجرت بلا تاخیر 36 ہزار روپے کرنے کے عملی اقدامات یقینی بنائے۔ مزدور طبقے کیلئے صرف اعلان کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ عملی اقدامات لینا بھی ضروری ہوتا ہے۔
انکا کہنا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مزدور طبقہ بھی انکی ماہانہ اجرت میں اضافے کی حقدار ہے۔ ملکی معیشت، بے روزگاری و بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب عوام کی زندگی انتہائی مشکل بنا دی ہے۔ ان غریب عوام کا انحصار بھی مزدوری یا دیہاڑی ہی پر ہوتا ہے لہذا فوری طور پر صوبائی حکومت اپنے اعلان کردہ فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
مزدور، کارخانوں میں کام کرنے والے و دیہاڑی دار طبقے سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین نے اس موقع پر بتایا کہ اس مشکل ترین دور میں 36 یا 37 ہزار روپے ماہانہ کچھ بھی نہیں پھر بھی صوبائی حکومت کی جانب سے انکی ماہانہ اجرت میں اضافے کے اعلان یا فیصلے میں تاخیر سمجھ سے بالاتر ہے۔ دن بھر محنت و مزدوری کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا لیکن اسکے باوجود بھی انکو کم معاوضہ ملنا انکی محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔
انکا کہنا تھا کہ انکے اہل خانہ کے روزمرہ اخراجات بالکل بھی پورے نہیں ہو رہے۔ ایسے میں وہ انتہائی پریشان ہیں لہذا فوری عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں وہ صوبائی محنت کشوں کی نمائندہ تنظیم سے ملکر شدید احتجاج پر اتر آئیں گے۔ لہذا صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ انکی مشکلات کا احساس کرکے فوری طور پر انکے جائز مطالبے کو تسلیم کیا جائے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے بجٹ کے موقع پر کم سے کم ماہانہ اجرت 32 ہزار روپے سے بڑھا کر 36 ہزار روپے کرنے کے اعلان کیا گیا تھا جس کو تاحال عملی جامہ نہیں پہنایا گیا جبکہ مرکزی اور دیگر صوبائی حکومتوں نے مزدورں کی کم سے کم ماہانہ اجرت ہزار روپے کرنے کے باقاعدہ اعلامیے بھی جاری کر دئیے ہیں۔