حمزہ بابا کی شاعری اور لنڈی کوتل کا تاریخی قہوہ خانہ
شاہین آفریدی
لنڈی کوتل بازار تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس بازار میں مشہور خوراک کے علاوہ 80 سالہ تاریخی قہوہ خانہ بھی موجود ہے۔ جو اب بھی اسی پرانی حالت میں ہے۔ اس قہوہ خانہ میں بابائے غزل حمزہ شینواری، خاطر افریدی، ساحل افریدی، ناظر شینواری جیسے نامور شعراء مشاعرے کرتے تھے، ایک دوسرے پر تنقید اور اصلاح کرتے تھے۔ مقامی شعراء نے یہ تسلسل آج بھی برقرار رکھا ہے اور ہر ہفتے یہاں مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں۔
لنڈی کوتل بازار کا مذکورہ قہوہ خانہ نا صرف تاریخی حوالے سے مشہور ہے بلکہ ٩٠ کی دہائی میں یہاں پشتو شعر و ادب کی مشہور شخصیات حمزہ بابا، خاطر آفریدی، ناظر شینواری، خیبر آفریدی اور دیگر شعراء یہاں آتے تھے اور شعر و ادب کے حوالے سے مباحثہ کرتے تھے اور نئے شعراء کی اصلاح کرتے تھے۔
مقامی شاعر و ادیب وارث خان عاجزکا کہنا ہے کہ ” اس قہوہ خانہ میں بابائے غزل حمزہ شینواری کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا اور آج بھی یہ ہوٹل ان کے نام سے منسوب ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ہوٹل اب بھی اسی پرانی حالت میں ہے اور یہی اس کی خاصیت ہے۔ ہم خوش محسوس ہوتی ہے کہ یہاں حمزہ بابا کے آثار آج بھی دیکھنے کو ملتے ہیں”۔
اس قہوہ خانہ میں شعراء کے علاوہ عام لوگ بھی آتے ہیں اور زیادہ تر شعر و ادب یا تاریخ کے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ منظور شینواری لنڈی کوتل کا مقامی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ "ضلع خیبر کے پرانے شعراء اس وجہ سے زرخیز اور ادب کے جانے مانے نام تھے کیونکہ ان کا تعلق حمزہ بابا، ناظر شینواری، خاطر آفریدی، خیبر آفریدی جیسے شعراء کے ساتھ اسی ہوٹل کہ وجہ سے بنا تھا۔ سینئر شعراء ہر صبح یہاں پر آتے تھے اور نئے شعراء کی تربیت اور اصلاح کرتھے تھے”
حمزہ بابا کی جانب سے شروع کردہ مجلس کا تسلسل آج بھی برقرار ہے اور ہر ہفتے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے شعراء اس ہوٹل میں بیٹھ کر مشاعرہ کرتے ہیں، تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہے اور شعر و ادب کےلحاظ سے ایک دوسرے کی اصلاح بھی کرتے ہیں۔
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر عبدالغفور غفور نے پانچ سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہم یہاں روزانہ بیٹھک کرتے ہیں چاہے ایک، دو یا پانچ شعراء ہوں۔ ہم نے اس قہوہ خانے کا وہ سلسلہ برقرار رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کی پہچان بنی ہے۔ لیکن مشاعرہ ہفتے میں ایک بار منعقد کرتے ہیں”۔
ایک اور شاعر کوہاٹ خان ذاکر کا کہنا ہے کہ” ہم نے اس قہوہ خانے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کیونکہ یہ درہ خیبر کا مرکز ہے۔ یہ قہوہ خانہ ضلع خیبر کے تمام علاقوں تک رسائی رکھتا ہے۔ ہم یہاں اپنی غزلیں پیش کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کی اصلاح کرتے ہیں”۔
شعراء کا کہنا تھا کہ ضلع خیبر شعر و ادب کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔ اس علاقے نے بابائے غزل حمزہ شینواری، خاطر آفریدی، ناظر شینواری، مراد شینواری، خیبر آفریدی، ساحل آفریدی جیسے عظیم شعراء پیدا کیے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ رسمی طور پر ان کے بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ موجود نہیں، لیکن چائے کے اس ہوٹل میں بیٹھ کر پشتو شعر و ادب کی خدمت کرتے ہیں۔ انہوں نے معیاری شاعری پر کام کیا۔ لیکن آنے والے لوگوں میں پشتو ادب کو پروموٹ کرنے کے لیے وہ مواقع میسر نہیں ہے جو کہ وقت کا مطالبہ ہے ۔