خیبر پختونخواعوام کی آوازفیچرز اور انٹرویوماحولیات

"اگر ہم نے فطرت پر رحم نہیں کیا تو فطرت ضرور انتقام لے گی”

رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے ضلع لور دیر میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر لگی آگ نے 80 ایکڑ زمین پر لگے جنگلات خاکستر کر دئے، ریسکیو حکام کا دعویٰ ہے کہ جنگلات کی آگ پر قابو پالیا گیا ہے مگر ماحولیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کئی سالوں سے جنگلات جلنے سے بائیوڈائیورسٹی اور ایکوسسٹم کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

خیبرپختونخوا کے جنگلات کو آگ نے ایسے حال میں نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں پر ہر سال دنیا بھر میں 5 جون کو ماحولیات کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال 5 جون کے عالمی دن کا موضوع "ہماری زمین” کے بینر تلے زمین کی بحالی، صحرائی زندگی اور خشک سالی کو روکنے کے لے لچک پیدا کرنا قرار پایا ہے۔

ریسکیو 1122 ضلع لور دیر کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر (ڈی ای او) ابرار خان نے ٹی این این کو بتایا کہ 28 اور 29 مئی کی درمیانی شب تالاش املوک درہ ، مچو اور سرائے پائین کے علاقوں میں چکدرہ غزو اوسکئ، میدان کالا ڈاگ، کامرانے اور اسلام درہ کے جنگلات میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر آگ لگی تھی جس پر قابو پا لیا گیا۔

ابرار خان کے مطابق دشوار گزار راستوں اور مسلسل فائر فائیٹنگ کے دوران ریسکیو 1122 کے متعدد اہلکاروں کی حالت غیر اور کئ زخمی ہوگئے مگر اہلکاروں نے فائر فائٹنگ جاری رکھتے ہوئے آگ پر قابو پایا۔ آگ بجھانے کے آپریشن میں سوات، ملاکنڈ اور اپر دیر کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔

انہوں نے بتایا ” تاحال آگ لگنے کی وجوہات کا علم نہیں مگر آگ نے تقریباً 80 ایکڑ جنگلات اپنے لپیٹ میں لئے تھے جس سے چیڑ، دیار، بلوط اور پائن کے درختوں کو نقصان پہنچایا ہے”۔

ابرار خان کا کہنا ہے "جنگل تک پہنچنے کیلئے اہلکاروں کو کافی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑا، شدید گرمی تھی، کئی کلومیٹر خستہ حال روڈ کے ذریعے پہاڑ کے دامن تک پہنچیں اور پھر تقریباً 2 ڈھائی گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑا”۔

ڈی ای او ابرار کہتے ہیں کہ پہاڑوں پر دو قسم کی آگ لگتی ہے ایک زمینی سطح پر اور دوسرا درختوں کی اوپری سطح پر، زمینی سطح پر اگ جھاڑیوں کی مدد سے بجھایا جاتا ہے مگر اوپری سطح پر آگ بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑتی ہے جسے ضلعی انتظامیہ نے بعد میں فراہم کیا۔

گزشتہ کئی سالوں سے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد کے مارگلہ کے پہاڑوں پر اگ لگنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں جس پر ماحولیات کے ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس جامع حکمت عملی موجود نہیں تاکہ وہ نہ صرف عوام میں اس حوالے سے شعور اجاگر کریں بلکہ متعلقہ اداروں کو وسائل کی فراہمی یقینی بنائیں۔

ماحولیات پر رپورٹنگ کرنے والے اسلام آباد میں مقیم صحافی آصف مہمند نے ٹی این این کو بتایا کہ ماحولیاتی تغیر کی وجہ سے گزشتہ 200 سال کے دوران گرمی کی شدت میں انتہائی اضافہ ہوا ہے اور سال 2023 انتہائی گرم سال ریکارڈ ہوا ہے۔ جنگلات میں آگ لگنے کی وجہ گرمی کی شدت میں اضافہ، حکومت کے پاس جامع حکمت عملی نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر انسانوں کا فطرت سے دوستانہ تعلق قائم کرنے کا علم نہ ہونا ہے۔

آصف مہمند کہتے ہیں کہ آگ لگنے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ بعض اوقات اکثر سیاح جنگلات میں کھانا پکانے کیلئے آگ لگاتے ہیں، جسے پھر بجھایا نہیں جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ قصداً آگ لگا دیتے ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت مقامی کمیونٹی کو جنگلات میں آگ پر قابو پانے کیلئے تربیت دیں اور الارم سسٹم کو مضبوط کریں۔

انہوں نے بتایا "اگر ہم نے نیچر (فطرت) پر رحم نہیں کیا تو نیچر ضرور انتقام لے گی۔ آقوام متحدہ کی لینڈ ریسٹوریشن کی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین کا استعمال موثر انداز میں کریں اور اپنی محدود اور ذاتی مفادات کی خاطر فطرت کا غیر ضروری استعمال نہ کریں، نہیں تو فطرت اپنا انتقام سیلاب، زلزلوں اور دیگر سنگین قدرتی آفات کی شکل میں لے گا”۔

آصف مہمند مزید بتاتے ہیں فطرت کا انتقام ہم نے 2022 اور 23 میں ضلع چارسدہ، نوشہرہ اور دیگر اضلاع میں سیلاب کی شکل میں دیکھا جس سے 40 سے 50 ہزار ایکڑ زرعی زمین خراب ہوگئی اور ان مسائل پر قابو تب پایا جاسکتا ہے جب حکومت ماحولیات کے موضوع کو سنجیدگی سے لیکر جامع حکمت عملی ترتیب دیں۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات کے مطابق گزشتہ سال 2023 میں 17 ہزار ایکڑ پر لگے جنگلات آگ لگنے سے متاثر ہوکر مختلف قسم کی قیمتی درختیں جل کر خاکستر ہوئے تھے۔

پشاور میں مقیم ماحولیاتی موضوعات پر کام کرنے والے صحافی محمد داؤد خان کہتے ہیں کہ موسمیاتی تغیر نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں 30 فیصد قابل کاشت زمین بنجر بنا دی تاہم دنیا کی 40 فیصد آبادی متاثر ہوئی ہے۔

داؤد خان نے ٹی این این کو بتایا "یہی وجہ ہے کہ جب جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہو تو سیلابوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلابوں میں اضافے سے قابل کاشت زمین کی 5 یا 6 انچ زمین کی سطح بہہ جاتی ہے اور یہ کئی دہائیوں تک قابل کاشت نہیں رہتی”۔

انہوں نے بتایا کہ "جنگلات میں آگ لگنا صرف آگ لگنے کی حد تک بات نہیں بلکہ اس سے ان جنگلوں میں مقیم چرند، پرند اور دیگر جانوروں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہے، جو بچ جاتے ہیں وہ مائگریٹ ہوجاتے ہیں، اسی طرح جنگلات انسانوں کی ضروریات مثلاً آکسیجن کی اخراج، کاربن ڈائی آکسائڈ کی انجذاب، فرنیچر اور ایندھن بھی متاثر ہوتی ہے تو یہ پورا ایکوسسٹم متاثر ہوجاتا ہے”۔
محمد داؤد کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کے پاس ایسا مکینزم ہونا چاہئے جو فوری طور پر آگ جیسے مسائل پر قابو پانے کیلئے موجود ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button