صحافیوں کے بعد فاٹا قومی جرگہ کی پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے کی دھمکی
اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے فاٹا قومی جرگہ کے زیر اہتمام فاٹا انضمام کے خلاف ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں سابقہ فاٹا بشمول ایف آرز سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں افراد نے شرکت کی۔
جرگے میں فاٹا قومی جرگہ کے چیئرمین ملک بسمہ اللہ جان آفریدی، سابق وزیر مملکت ملک وارث خان آفریدی، وزیرستان سے ملک خان مرجان اور جے یو آئی کے مرکزی سیکریٹری جنرل مفتی عبدالشکور و دیگر سابقہ سینیٹرز، ایم این ایز، بیوروکریٹس، سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ قومی مشرانوں و نوجوانوں نے شرکت کی، شرکاء نے فاٹا انضمام مخالف نعرے بازی بھی کی۔
جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام غیرآئینی ہے جو قبائلی عوام کے ساتھ زیادتی ہے، انضمام کے بعد قبائلی عوام کے مسائل میں اضافہ ہوا، فاٹا کو بیرونی ایجنڈے کے تحت خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا اور اس کے نتائج کو ذہن میں رکھے بغیر اور فاٹا کے مشران کو اعتماد میں لئے بغیر قبائلی عوام پر مسلط کیا گیا ہے۔
مقررین نے کہا کہ کہ فاٹا سے آئے ہوئے اتنے لوگ حکومت کیلئے واضح پیغام ہے کہ قبائلی عوام فاٹا انضمام کے حق میں نہیں اس لئے حکومت اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فاٹا کی پرانی حیثیت بحال نہ کی تو پھر قبائل پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے غیرمعینہ مدت کیلئے دھرنا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فاٹا انضمام کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب فاٹا انضمام کے حامی افراد بھی فاٹا انضمام سے دل برداشتہ ہو چکے ہیں اور منہ چھپائے پھر رہے ہیں، ”فاٹا انضمام کے موقع پر حکومت نے قبائلی عوام کے ساتھ جو وعدے کئے تھے وہ سب جھوٹ ثابت ہوئے۔”
مقررین نے کہا کہ فاٹا کو اصلاحات کے نام پر خیبر پختونخواہ کے بیوروکریٹ اور سیاسی مگرمچھوں کے حوالے کیا گیا ہے جو آئے روز فاٹا کے وسائل پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں، قبائلی اضلاع میں حالیہ دنوں محکمہ صحت اور دوسرے محکموں میں آسامیوں پر خیبر پختونخواہ سے تعیناتیاں کی گئیں جو کہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ قبائلی اضلاع کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے، پورے ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں فاٹا کے نوجوانوں کا کوٹہ ختم کیا گیا ہے جس کے اثرات مستقبل قریب میں بہت بھیانک نکلیں گے اس لئے قبائلی عوام فاٹا انضمام کے خلاف اٹھیں ورنہ ہماری آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومتیں انضمام کے وقت قبائل کے ساتھ کئے گئے وعدے کسی خاطر میں نہیں لاتی جبکہ وہ قبائل کا مسلسل استحصال کر رہی ہے، انضمام قبائلی عوام کی بربادی کا منصوبہ ہے جسے کسی قیمت پر قبول نہیں کیا جائے گا۔
آخر میں بریگیڈئر سید نذیر نے جرگے کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا جسے جرگے نے متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ اعلامیہ میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فاٹا کو پاکستان کی پانچویں اکائی تسلیم کیا جائے اور قائداعظم محمد علی جناح کے زریں اصولوں کے تحت فاٹا کی حیثیت میں رد و بدل کے سلسلے میں قبائلی عوام کی رائے کو مقدم سمجھا جائے، فاٹا انضمام کو واپس لیا جائے اور فاٹا کے بے گھر افراد کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔
خیال رہے کہ میڈیا پر پابندیوں اور پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ قانون کے خلاف اسلام آباد میں اس وقت ملک بھر کے صحافیوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا ہے، صحافیوں نے مشترکہ اجلاس کے دوران پریس گیلری سے واک آؤٹ بھی کیا۔
گذشتہ روز صحافیوں کی جانب سے ریلی نکالی گئی تھی جس پر پولیس کی جانب سے ریڈ زون کو جانے والوں راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئی تاہم احتجاج میں شریک صحافی خاردار تاریں ہٹا کر ڈی چوک پہنچ گئے تھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت نے ملک میں ذرائع ابلاغ کے لیے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے نام سے ایک ریگولٹر بنانے کی تجویز دی ہے جسے نہ صرف اپوزیشن بلکہ صحافتی تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مجوزہ اتھارٹی کو آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی کوشش قرار دی جا رہی ہے۔