خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

رحیم اللہ یوسفزئی: صحافت کا روشن باب ہی نہیں لاچاروں کا سہارا بھی تھے

عبدالستار

رحیم اللہ یوسفزئی کی موت سے نہ صرف صحافت کا ایک روشن باب غروب ہو گیا جبکہ غریب اور لاچار لوگوں کا آسرا بھی چھن گیا۔

عہدساز سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نہ صرف صحافت کے ایک مشفق استاد تھے بلکہ اپنے آبائی گاؤں میں ایک سرگرم سماجی کارکن بھی تھے، خوبصورت جسامت کے مالک رحیم اللہ یوسفزئی صحافتی دنیا میں چمکتے ستارے کی مانند تھے اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک وہ اپنے پیشے سے وابستہ رہے، وہ ہمیشہ نوجوان صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہیں حوصلہ دیتے تھے کہ آپ اپنا کام اچھے طریقے سےجاری رکھیں، مستقبل میں میڈیا مارکیٹ بہتر ہو جائے گی۔

دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے ممتاز صحافی رحیم اللہ یوسفزئی اپنی مصروف صحافتی زندگی کے ساتھ اپنے آبائی علاقے کے لئے ایک بہترین سوشل ورکر رہے، انہوں نے ہمیشہ اپنے صحافتی تعلق کو غریب لوگوں کی بھلائی اور علاقے کی ترقی کے لئے استعمال کیا۔

انہوں نے ہمیشہ اپنے علاقے میں غریب اور لاچار لوگوں کی بغیر کسی لالچ کے خدمت کی ہے، وہ کئی سالوں سے کمزور خاندانوں کے نوجوان جوڑوں کی اجتماعی شادیوں کا بندوبست کرتے تھے۔

ایک تقریب کے دوران انہوں نے مجھے کہا کہ غریب نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی اجتماعی شادیوں کے پروگرام کا خرچہ وہ خود اور ان کے دودوست اٹھاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جا سکے جن کی بیٹی یا بیٹا جوان ہو اور ان کے پاس ان کی شادی کا خرچہ نہ ہو۔ وہ ہرسال وہ اپنے علاقے کے غریب معذور افراد میں این جی اوز کے زریعے ویل چیئر تقسیم کرتے تھے اور رمضان پیکج اور عید کے موقع پر ضرورتمندوں میں امدادی پیکیجز بھی تقسیم کرتے تھے، وہ غریبوں کے لئے ایک سہارا تھے۔

رحیم اللہ یوسفزئی کو ہمیشہ اپنے علاقے کے مسائل کی فکر ہوتی تھی، وہ کھبی خواتین کے لئے دستکاری سنٹر کے لئے غیرملکی ایمبیسیوں کو منت سماجت کرتے تھے تو کبھی سکول اور ہسپتال کے لئے متعلقہ محکموں اور این جی اوز کے زریعے کام کرواتے تھے یہاں تک کہ ایکسپرس وے کی تعمیر کے وقت ایف ڈبلیو او کیمپ کا وزٹ کیا اور ان سے اپنے علاقے میں سرکاری بی ایچ یو کے لئے سامان لینے کے لئے کہا جس کے بعد ایف ڈبلیو او کے حکام نے بہت سارا ضروری سامان ہسپتال کے لئے خریدا۔

رحیم اللہ یوسفزئی نےخیبر پختونخوا کے سابق گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ر) افتخار حسین شاہ مرحوم کو اپنے علاقے کادورہ کرایا اور تقریباً دس کلومیٹر سڑک جمال گڑھی فرش سے میاں خان گاؤں تک تعمیر کرائی، اس سے پہلے روڈ کی حالت ابتر ہونے کی وجہ سے لوگوں کو شدید تکلیف ہوتی تھی، بعد میں لوگوں نے رحیم اللہ یوسفزئی سے محبت کے اظہار میں شاہراہ رحیم اللہ یوسزئی کا بورڈ بھی نصب کیا۔ اس دورے کے دوران گورنر افتخار حسین شاہ سے علاقے کے لئے بجلی کا گریڈسٹیشن بھی منظور کروایا جس کے بعد مقامی لوگوں کو سخت گرمی میں لوڈشیڈنگ اور کم وولٹیج سے چھٹکارا حاصل ہو گیا۔

بقول مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی صاحب کے جب تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرت ہو رہے تھے اور مذاکراتی ٹیم میں ان کا نام بھی طالبان اور حکومت دونوں کی جانب سے پیش کیا گیا تھا تو اس سلسلے میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ملاقاتیں ہوتی تھیں، انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت سے فائدہ اٹھایا اور اپنے علاقے کے لئے سوئی گیس کی منظوری کے لئے وزیراعظم کو درخواست دی جو کہ اربوں روپے کا منصوبہ تھا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ صرف آپ کے گھر کے لئے گیس چاہیے تو جواب دیا کہ نہیں وزیراعظم صاحب پورے علاقے کے لئے، جس کے بعد پورے علاقے کے بانڈہ جات میں گیس کے لئے سروے کیا گیا اور منصوبہ منظور ہوا جس پر ابھی کام جاری ہے۔

رحیم اللہ یوسفزئی ایک بہترین سوشل ورکر تھے اور جب وہ عید یا کسی دوسرے موقع پر گاؤں میں اپنے حجرے پر ہوتے تھے تو ان کے حجرا پورا دن لوگوں سے بھرا ہوتا تھا اور لوگ اپنے مسائل لاتے تھے جو رحیم اللہ یوسفزئی اپنے صحافتی تعلق کو استعمال کر کے حل کرتے تھے جبکہ کئی غریب لوگوں کا چولہا جلائے رکھنے کے لئے سرکاری نوکریاں حاصل کرنے لئے تگ ودو کرتے تھے جس کی وجہ سے آج ان کی نماز جنازہ میں ہر آنکھ اشک بار تھی جبکہ فاتحہ کے موقع پر علماء بھی ان کی خدمات اور تعاون کا اعتراف کر رہے تھے۔

جس طرح ان کے اپنے پیشے صحافت سے انصاف کرنے کی پوری دنیا معترف ہے اسی طرح اپنے علاقے میں فلاحی اور ترقیاتی کام کر کے اس مٹی کے فرزند ہونے کا حق ادا کر کے چلے گئے۔

رحیم اللہ یوسفزئی 11 ستمبر 1954 کو ضلع مردان کی تحصیل کاٹلنگ کے گاؤں شموزئی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی جبکہ انٹر تک تعلیم انہوں نے ملٹری کیڈٹ کالج جہلم سے جبکہ گریجویشن کی ڈگری کراچی کی یونیورسٹی سے حاصل کی تھی۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے صحافتی کریئر کراچی شہر سے شروع کیا تھا اور انگلش روزنامہ دی سن میں بحیثیت پروف ریڈر کام شروع کیا اور بعد میں انہوں نے پشاور میں انگریزی اخبار ‘دی مسلم’ کے لئے رپورٹنگ شروع کی اور چند سال بعد انگلش روزنامہ ‘دی نیوزانٹرنیشنل’ سے وابستہ رہے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی اخبار کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے اور تقریباً پچاس سال تک صحافت کی۔

رحیم اللہ یوسفزئی کو افغانستان کے حالات پر کئی دہائیوں سے غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کرنے پر انہیں ماہر امور افغانستان کا لقب ملا، انہوں نے دو مرتبہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا انٹرویو کرنے سے پوری دنیا میں شہرت ملی جبکہ وہ واحد صحافی تھے جنہوں نے طالبان کے سابقہ سربراہ ملا محمد عمر کا بھی انٹرویو بھی کیا تھا۔

رحیم اللہ یوسفزئی کو بہتریں صحافت کرنے پر ملک کے اعلی اعزازات سال 2005 میں تمغہ امتیاز اور سال 2010 میں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

 

رحیم اللہ یوسفزئی ملکی میڈیا اداروں کے علاوہ بین الاقوامی اداروں میں بھی اپنے تجزیے دینے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھے، وہ بین الاقوامی ادارہ بی بی سی پشتو کے ساتھ لمبے عرصے تک بھی وابستہ رہے، ان کی وفات سے صحافت کے شعبے میں جو خلا پیدا ہوا وہ مشکل سے پورا ہو گا۔

وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے سرطان کے مرض میں مبتلا تھے اور 10 ستمر جمعرات کی شام پشاور کے ہسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے جنہیں 11 ستمبر بروز جمعہ ان کے آبائی گاؤں شموزئی کے خان ضمیر بانڈہ میں بعد از نماز جنازہ ہزاروں اشک بار آنکھوں کے سامنے سپردخاک کیا گیا۔ مرحوم نے اپنے سوگواران میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button