لڑکیوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کرنے والے ان کے مخالفین کیوں بن جاتے ہیں؟
عائشہ یوسفزئی
ہماری زندگی میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ اپنے بل بوتے پر مختلف چیزوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں اور ایک اچھا مقام حاصل کر لیتے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو بدقسمتی سے شوبز سے جڑے لوگوں یا پھر اس کو اچھی نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے والوں کو زیادہ تر لوگ ناقدری کی نظر سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ کبھی کبھار مایوس بھی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ماضی سے ہی مورخین اس بات کے گواہ ہیں کہ مغربی ممالک آرٹسٹ کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں بہ نسبت مشرقی ممالک کے جیسا کہ پاکستان نہ کہ بھارت۔
پرانے زمانے میں صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جس پر فنکار، اداکار یا کوئی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بہت سی ایپس آنے لگیں جن میں لوگوں نے کافی دلچسپی لینے لگے اور دنیا کے سامنے ایک اچھی تصویر پیش کی، بالکل اسی طرح ایک ایپ ٹک خا بھی ہے جو کہ چائنا شہری کی ایجاد ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں مشہور ہو گئی اور لوگ اس پر اب تک سیکنڈوں سے لے کر ایک منٹ تک کی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کرتے ہیں لیکن بھر بھی ہمارے معاشرے میں اس کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے خاص طور پر پشتون لوگ تو بالکل بھی سپورٹ نہیں کرتے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک معروف ٹک ٹاکر خان خالد نے بتایا کہ پشتون معاشرے میں فن کو تو پسند کیا جاتا ہے لیکن فنکار کو نہیں، ”میں آفریدی ہوں اور ٹک ٹاک بنانے سے پہلے ماڈلنگ کرتا تھا، مختلف کمپنیوں کے پراڈکٹس کی تشہیر کرتا اور بہت ہی تھوڑی سی رقم لے کر واپس گھر آ جاتا اور پھر گھر والوں کی باتیں سنتا، رات کو والد صاحب بھی غصہ کیا کرتے تھے، آگے بڑھنے کے جنون میں پروڈیوسر اور ڈائریکٹرز کے دفتروں کے چکر لگایا کرتا تھا لیکن وہ لوگ کوئی توجہ نہیں دیتے تھے اور یوں ہر دن مایوسی میں گزرتا تھا، خوش قسمتی سے ایک دو بار شوز یا تقاریب میں جانے کا موقع ملتا تو پھر تیاری کے ساتھ ہی جاتا لیکن روزگار کا پھر بھی کوئی صحیح زریعہ نہ تھا، پھر جب ٹک ٹاک ایپ آئی تو پورے ملک سے لوگ اس میں ویڈیو بنانے لگے کوئی لپسنگ کرتا تو کوئی ایکٹنگ یا پھر مزاحیہ کلپ بناتا اور شئیر کرتا،یہ سب دیکھ کر میرا بھی من کیا اور کم وقت میں میری ویڈیوز کی وجہ سے زیادہ لوگ میری آئی ڈی کو فالو کرنے لگے اور وہ لوگ جنہوں نے مجھے نظرانداز کیا ہر قدم پر آج ہمیں اپنے شوز میں لانے کیلئے بے تابی سے فون کالز کرتے ہیں۔”
خان خالد نے یہ بھی کہا کہ ٹک ٹاک سے جہاں ہم مشہور ہوئے تو بدقسمتی سے اس دوران دو تین بار ٹک ٹاک کو بند کر دیا گیا اور اس کا سب سے بڑا اثر ہمارے فالورز پر پڑا، ہم مختلف جگہوں پر جاتے ہیں، نئے کپڑے خرید کر بناتے ہیں پھر اس میں ٹک ٹاک بنا کر ایپ پر ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام اس کو پسند کریں اور ہمارے فالوورز زیادہ ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹک ٹاک بند ہونے کی اصل وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کچھ ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جو کہ فحاشی پیھلانے کا سبب بنتی ہیں اور نوجوانان تعلیم سے دور ہو رہے ہیں مگر اس کے علاوہ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہ تخلیقی چیزیں ویڈیوز کے زریعے سامنے لاتے ہیں اور دنیا میں لوگوں کو کچھ نیا سیکھنے کو مل جاتا ہے، اس کے برعکس ہم ٹک ٹاک بند ہونے کے بعد سنیک ایپ استعمال کرتے ہیں اور ویڈیوز زیادہ دیکھنے کی صورت میں ہزاروں سے لاکھوں ماہانہ کماتے ہیں۔
ٹک ٹاکر نے کہا کہ زندگی کی دوڑ میں لڑکیوں کو اگر آگے بڑھنے کی تلقین کرنے والے بہت ہیں بالکل اسی طری جب ایک لڑکی کیمرے پر آنا چاہتی ہو تو پھر یہی لوگ مخالفین بن جاتے ہیں، ”لڑکیوں کا بھی دل کرتا ہے کہ وہ بھی کیمرے پر آ کر مشہور ہو جائیں لیکن ہمیں کمنٹس میں گالیاں دی جاتی ہیں باوجود اس کے پھر بھی لڑکیاں ٹک ٹاکرز لڑکوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کرتی ہیں۔”