افغانستانبین الاقوامیفیچرز اور انٹرویو

افغانستان: 9/11 کے بعد کتنے فوجی، جنگجو اور عام لوگ مارے گئے؟

وسیم سجاد

آج 31 تاریخ کو امریکی اور اتحادی فوجوں کے انخلاء کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ افغانستان کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے آخری امریکی میجر جنرل کرس ڈونا تھے جو نکل گئے۔

اس انخلاء کے بارے میں مختلف قسم کی بحث چھڑ گئی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ امریکا کی جیت ہوئی تو کوئی کہہ رہا ہے یہ امریکہ کی ہار ہے۔ ادھر طالبان نے بھی امریکہ کے آخری فوجی کے انخلا کے بعد اسے اپنی جیت قرار دیا ہے اور خوشی کا اظہار فائرنگ کے ذریعے کیا۔

ٹی این این نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس بیس سالہ جنگ میں کتنے لوگ مارے گئے اور امریکہ نے کتنے پیسے خرچ کئے۔

کاسٹس آف وار پرجیکٹ نے 25 اگست کو ایک ریسرچ شائع کی ہے جس میں یہ احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس افغان جنگ کی وجہ سے براہ راست کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور امریکہ نے اب تک افغانسان میں کتنے پیسے خرچ کئے ہیں۔ اس ریسرچ میں 9/11 کے بعد امریکہ کے آنے سے لے کر اس کے انخلاء کے آخری دنوں تک کا ڈیٹا شامل ہے۔

ریسرچ کے مطابق 9/11 کے بعد افغانستان میں جنگ کی وجہ سے ایک لاکھ ستر ہزار (170،000) لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں مارے گئے افغان شہریوں کی تعداد 47 ہزار 245 بتائی گئی۔ دوسری جانب ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 2 ہزار 442 ہے جبکہ دیگر اتحادی افواج کے 11 ہزار 44 اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسی طرح افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی کنٹریکٹرز کی تعداد 3 ہزار 846، انسان دوست اور فلاحی کام کرنے والوں کی تعداد 444 بتائی گئی ہے۔

ریسرچ کے مطابق دو دہائیوں پر محیط اس جنگ میں سب زیادہ ہلاک ہونے والے افغان ملٹری اور پولیس اہلکار ہیں جن کی تعداد 66 سے 69 ہزار کے درمیان ہے۔ دوسرے نمبر پر مارے جانے والوں میں مخالفین جنگجو (داعش، طالبان اور دیگر) ہیں جن کی تعداد 51 ہزار 191 بتائی گئی ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں اور لوگ بھی شامل تھے جو مختلف ممالک سے تھے اور مختف کاموں کی غرض سے افغانسان آئے تھے البتہ ان کی تعداد بہت کم تھی۔

ورلڈ پریس فریڈم انڈکس کے مطابق افغانستان 180 ممالک میں ورلڈ پریس فرینڈم انڈکس میں 122 نمبر پر ہے۔ البتہ کابل کی حکومت طالبان کے ہاتھوں میں جانے کے بعد میڈیا کی آزادی بہت زیادہ قابل غور ہے۔ ایک طرف طالبان بار بار میڈیا کی آزدی کے بارے میں یہ باور کرا رہے ہیں کہ طالبان کی حکومت میں کسی میڈیا کو کام کرنے کی پوری آزادی ہو گی۔

تاہم دوسری جانب دیکھا جائے تو افغانسان میں کام کرنے والے صحافی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ بلال سروری اور بہشتہ ارغان نامی خاتون صحافی چند دن قبل افغانستان چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بلال سروری افغانستان میں بیس سال سے صحافت کر رہے تھے طالبان کے حکومت میں آنے سے پہلے جن سے بہت مرتبہ یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ افغانستان چھوڑیں گے تو ان کا جواب ہمیشہ نفی میں ہوتا تھا۔

کاسٹس آف وار پراجیکٹ کے مطابق ان بیس سالوں میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 72 ہے جن کو ڈیوٹی کے دوران یا اپنے فرائض سرانجام دینے کی وجہ سے ہلاک کیا گیا ہے۔

کاسٹ اف وار پراجکٹ نامی ادارہ 2010 کو امریکہ میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ مختلف جنگ زدہ ممالک سے ڈیٹا کلیکٹ کرتا ہے اور واٹسن انسٹیٹوٹ اف انٹرنیشنل اینڈ پبلک افئیرز کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

امریکہ نے افغانستان میں دوسرے انوسمنٹس سے ہٹ کر صرف جنگ پر 2 ہزار 313 بلین ڈالرز خرچ کئے ہیں۔

دوسری جانب مریکی صدر جو بائیڈن نے 31 اگست 2021 (آج) کو امریکی انخلاء پر اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ امریکہ نے دنیا کا سب سے بڑا انسانوں کا انخلاء کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پچھلے 17 دنوں میں اب تک ایک لاکھ 20 ہزار لوگوں کا انخلاء کیا گیا ہے جن میں افغان، امریکی اور امریکی اتحادی شامل ہیںں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان میں اب ان کی کوئی موجودگی نہیں ہے اور امریکی افواج کی 20 سالہ موجودگی کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے۔

پچلھےچند دنوں سے یہ بات سوشل میڈیا پر بہت زیادہ گردش کر رہی ہے کہ امریکہ کا انخلاء اتنی جلدی کیوں ہوا۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر یہ بات گردش کر رہی ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں بیس سالہ موجودگی اور اتنا بڑا سرمایہ لگانے کا انجام کیا ہے؟

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ سے وابستہ اور بنیادی طور پر انسانی حقوق کے فعال کامران خان نے اس حوالے سے بتایا کہ امریکہ کی بیس سالہ موجودگی جو اتنے زیادہ لوگوں کے مارے جانے کا زریعہ بنی تشویشناک نہیں تھی البتہ اتنی جلدی سے انخلاء نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ قابل مذمت اور قابل شرم بھی ہے۔

ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں کامران خان نے بتایا کہ افغانستان سے امریکہ نے انخلاء تو کیا ہے البتہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ان کی سمجھ سے بالا تر ہے، ”وہاں پر داعش، امراللہ صالح اور ان کی طرح کے اور لوگوں کی موجودگی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان کسی بھی وقت دوبارہ جنگ کے منہ میں جا سکتا ہے، طالبان کے درمیان اختلافات سے بھی افغانستان کو آنے والے وقت میں خطرہ ہے۔”

انہوں نے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملے کی طرف اشارہ کیا جس میں 90 سے زیادہ لوگ ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے، اور کہا کہ اس سے اندازہ لگیا جا سکتا ہے کہ افغان باشندے کن حالات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

افغان صحافی انیس ارحمان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر امریکی انخلاء کے بعد اس بیس سالہ جنگ کو افغانیوں کا قتل سمجھ کر لکھا ہے کہ جنگ کا اختتام تو ہوا لیکن حاصل کیا ہوا، صرف اور صرف ہزاروں افغان باشندوں کا قتل عام۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button